نئے اسلامی سال کے آغاز پر تجدید عہد کریں
گردش ماہ و سال اور سلسلۂ روز و شب زندگی کا حصہ ہے، مگر بعض لوگ اسے صرف "گردش” اور "سلسلہ” سمجھ کر گزار دیتے یا گزر جاتے ہیں، جبکہ حقیقت پسند اور کامیاب لوگ ماہ و سال کی اس گردش اور روز و شب کے اس سلسلے کو ایک عبرت، نصیحت اور تنبیہ خیال کرتے ہیں۔ لوح دماغ پر زندگی کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے زائچے اور سود و زیاں کے گوشوارے مرتب کرتے ہیں۔ زمانے اور وقت کے اختتام پذیر ہوتے اس مرحلے پر پہنچ کر” کیا کھویا، کیا پایا” جیسے فکر انگیز سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں مالیاتی ادارے، تجارتی کمپنیاں اور کاروباری حضرات جس طرح ہر سال کے اختتام پر گزرے سال کا جائزہ لیتے اور خامیوں اور کمزوریوں کی نہ صرف نشاندہی کرتے ہیں، بلکہ آئندہ سال بہتر نتائج کے حصول کے لئے ان کی تلافی کی حکمت عملی بھی وضع کرتے ہیں۔
اسی طرح ہر فرد گزرے سال کو ایک عبرت، نصیحت اور تنبیہ کا مقام قرار دے کر اپنی انفرادی، اجتماعی، معاشرتی، معاشی، دینی اور دنیاوی زندگی کی اصلاح کی غرض سے محاسبے کا اہتمام کر لے، تو یہ امر ہماری زندگی میں مثبت انقلاب کا واضح پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اس مقام پر پہنچ کر دنیا کی رنگینیوں اور زندگی کی بھول بھلیوں میں کھو جانے کی بجائے اپنے گزرے ہوئے سال پر نگاہ ڈال کر سب سے پہلے یہ جائزہ لیا جائے کہ مسلمان ہونے کے ناتے حقوق اللّٰہ کے ضمن میں جن فرائض اور ذمہ داریوں کا اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں پابند بنایا ہے، ان کی انجام دہی سے ہم کس حد تک سبکدوش ہوئے؟
جن میں صوم و صلوۃ کی پابندی، راست گوئی، صداقت شعاری، ایفائے عہد، رجوع الی اللّٰہ، شرم و حیا، نظروں کی حفاظت، صدقات و خیرات، عصمت و پاکدامنی، دل کی پاکیزگی، موسیقی سے اجتناب، دروغ گوئی سے احتراز، گناہوں سے بچاؤ اور تلاوت قرآن پاک سر فہرست ہیں۔
حقوق اللّٰہ سے متعلقہ مندرجہ بالا امور میں جہاں اصلاح کی ضرورت ہو آئندہ سال اس کی تدبیر اختیار کی جائے۔اس کے بعد حقوق العباد کے ذیل میں ہمیں جن سنہری تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا پابند بنایا گیا ہے، جن کی بدولت ہم سماجی برتری حاصل کر سکتے ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے کہ ہم کس حد تک ان سے عہدہ برآ ہونے میں کامیاب ہوئے؟
واقعہ یہ ہے کہ دین اسلام میں معاشرتی نظام کو بڑا مقام حاصل ہے اور دین اسلام نے حقوق اللّٰہ سے حقوق العباد کی اہمیت زیادہ رکھی ہے۔ جن میں والدین کی خدمت، بیوی کے نان نفقہ کی ادائیگی، اولاد کی تعلیم و تربیت، پڑوسیوں کی خیرخواہی، اساتذہ کا ادب و احترام، علما کی تعظیم، اعزا و اقارب کی خبرگیری، کمزور طبقوں سے ہمدردی، غریبوں کی امداد، بیواؤں کی اعانت، مظلوموں کی داد رسی، یتیموں سے حسن سلوک، ماتحتوں سے خوش معاملگی قابل ذکر ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات (مثلاً سیلاب و زلزلہ) کے متاثرین کی نصرت، مزدوروں کی اجرت کی ادائیگی، غربا و مساکین کے ساتھ مالی تعاون اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ اخلاقی برتاؤ سر فہرست ہیں۔ حقوق العباد کے سلسلے میں خاص احتیاط کے ساتھ جائزہ لینے کے بعد جہاں بھی اصلاح ضروری ہو، وہاں اصلاح احوال کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔
مسلمان ہر نماز کے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین کردہ ایک قرآنی دعا پڑھتے ہیں، جس میں اللہ تعالی سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگی جاتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دین اسلام کو آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کی بھلائی بھی مطلوب ہے۔ اس سلسلے میں اپنے ذرائع آمدن، ملازمت، کاروبار، صنعت و حرفت، زراعت اور اپنی مالی و معاشی حیثیت کا جائزہ لیا جائے۔
خصوصاً نفسا نفسی، افراتفری اور مادی مسابقت کے اس دور میں جب کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی تمیز باقی نہیں رہی، یہ شعبہ زیادہ حساسیت کا متقاضی ہے۔ گذشتہ سال کا جائزہ لینے کے بعد کمزوریوں، غلطیوں اور ناکامیوں کی وجوہات کے ادراک و احساس کے ساتھ ساتھ آئندہ سال تلافی اور تدارک کا عزم کر کے روشن مستقبل کے لئے راستہ ہموار کیا جائے۔
آئیے! گزشتہ سال کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ تینوں حوالوں سے اپنے آپ کو محاسبہ اور خود احتسابی کے عمل سے گزاریں۔ گزرے سال کی غلطیوں، غفلتوں، خامیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اللّٰہ کی دی ہوئی اس مہلت کو غنیمت جان کر آئندہ سال میں اصلاح احوال کا عزم نو اور تجدید عہد کریں، تاکہ دنیا و آخرت کی سرخ روئی، کامیابی اور کامرانی حاصل کی جاسکے۔ اللّٰہ تعالی یہ اسلامی سال امت مسلمہ کے حق میں بابرکت بنائے۔