KIZIM باپ بیٹی کی محبت پر بہترین ترک ڈرامہ
یہ ڈائیلاگ KIZIM ترکی ڈرامہ کا ڈائیلاگ ہے، جو ہندی ترجمے کی ڈبنگ میں "My Little Girl” اور انگریزی ڈبنگ میں My daughter کے نام سے ایک سیریز سنہ 2018 اور 2019 میں آن ائیر ہوا۔
جس میں ایک آٹھ سالہ بیٹی اویکو Oyuko Tekin اپنی آنٹی کے گھر سے ہمیشہ کے لئے اپنے باپ کے پاس بھیجی جاتی ہے، اویکو جو اپنی والدہ (Asu Karahan) کی دوست زینپ کایا کے ساتھ رہتی ہے، کیونکہ اس کی ماں اسے پیدا کرنے کے بعد پالنا نہیں چاہتی اور اپنی دوست یا بہن کے پاس چھوڑ جاتی ہے، اس کی خالہ کو جب یہ پتہ چلتا ہے کہ اویکو کو ایک ایسی نادر جینیاتی بیماری ہے جو Liquid metabolism کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جس کا نام Niemann-Pick in ہے، تو وہ Öykü کو اپنے والد، Demir Göktürk کے پتے کے ساتھ ایک نوٹ چھوڑتی ہے۔
اویکو خود سفر کرکے جس لمحے آنٹی کی طرف سے بتائے گئے اپنے باپ کے ایڈریس پر پہنچتی ہے، اس وقت اس کا باپ "دامیر” جو ایک چھوٹا موٹا چور ہے جو Antique فن پارے چوری کرتا ہے یا ہیرا پھیری کے کام کرتا ہے، جس دن ایکو اپنے باپ سے ملنے جاتی ہے، اسی دن کی صبح دامیر کو پولیس نے گرفتار کیا گیا تھا،
اویکو جب وہاں پہنچتی ہے تو دامیر کے دوست سے ملتی ہے، اویکو اس کو بتاتی ہے کہ دامیر اس کا باپ ہے اور وہ اس کے پاس آئی ہے، اس کا دوست اسے پولیس اسٹیشن کے جاتا ہے، جہاں دامیر کو عدالت بھیجا جاتا ہے، عدالت میں جج دامیر کو اس شرط پر جانے دیتا ہے کہ وہ اویکو کو اس کے والد کے طور پر اپنی تحویل میں لے گا، دامیر جیل نہ جانے کی وجہ سے اویکو کو بظاہر قبول کر لیتا ہے مگر وہ اویکو سے تنگ ہے اس کی پرواہ نہیں کرنا چاہتا۔پھر دایمیر کو پتہ چلتا ہے کہ اویکو ایک ایسے مرض میں مبتلا ہے جو موروثی بیماری Niemann-Pick ہے۔ تب اسے احساس ہوتا ہے اور وہ اپنی بیٹی سے محبت کرنے لگتا ہے۔
یہ ایک باپ کی اپنی بیٹی کے لئے محبت پر بنائی جانے والی بہترین ڈرامہ سیریز ہے، چونکہ یہ ترکی لائف اسٹائل پر ہے، تو ممکن ہے بہت ساری باتیں ہمارے معاشرتی رویوں اور خانگی زندگی جیسی نہیں لگیں گی، مگر اس میں محبت کے روئیے، امیدیں، دشمنیوں کے ساتھ ساتھ ایک باپ کی محبت دکھائی گئی ہے۔
دامیر کے پرانے دوست اور دشمنوں کی سازشیں، ایک کردار مس جاندان جو اویکو سے محبت کرتی ہے، اویکو کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک عجیب سی بیماری کا شکار ہے، ابتدائی قسطوں میں وہ جس طرح اپنی بیماری کو اپنے باپ سے چھپانے کی کوشش کرتی ہے، اویکو کی ایکٹنگ انتہائی کمال ہے، اویکو کے ساتھ اس کے باپ دامیر اور مس جاندان کا ریلیشن بہت حساس اور بہت جذباتی تاثرات کے ساتھ دکھایا گیا۔
دامیر کے دشمن دامیر کو تکلیف دینے کے لئے اس کی والدہ کو لاتے ہیں اور اویکو کی تحویل کے لئے عدالتی کوششیں کرتے ہیں، اویکو کی بہترین جذباتی ایکٹنگ اس میں بہت کمال ہے۔ مزید پے در پے کرداروں کا ڈرامہ سیریز میں آنا جو تسلسل کے ساتھ سسپنس قائم رکھتا ہے اور پرت در پرت کہانی نئے موڑ میں داخل ہوتی ہے۔
مجھے یہ ڈرامہ سیریز پسند آئی ہے، خصوصا ایک باپ جو بہت برے حال میں بھی اپنی چند دن پہلے ملنے والی بیٹی سے پہلے نفرت اور پھر محبت میں جس طرح اس کی بیماری میں اپنی مفلوک الحالی کے ساتھ لڑنے کی کوشش کرتا ہے۔
دوم ترک ڈرامے میں ایک اچھا کام ہے وہ ایسی موروثی بیماری کی آگاہی پر ڈرامہ بنایا ہے جس کا علاج اس وقت دنیا میں نہیں ہے۔
یہ ایک موروثی بیماری (Genetic Desease)، جو Niemann–Pick type C (NPC) (colloquially، "Childhood Alzheimer’s کے نام سے جانی جاتی ہے، یہ NPC1 and NPC2 genes کے ساتھ میوٹیٹ ہوتی ہے۔
دنیا اس بیماری کو پہلی بار سنہ 1960 کی دہائی میں جان سکی تھی، پوری دنیا میں پیدا ہونے والے ہر ایک سے ڈیڈھ لاکھ بچوں میں سے کوئی ایک بچہ اس مرض کا اوسطا شکار ہوتا ہے، اس کے پچاس فیصدی مریضوں کی تشخیص دس سال سے کم عمر کے بچوں میں ہوا ہے۔
آسان لفظوں میں یہ ہے کہ یہ بیماری انسانی جسم کو فالج میں مبتلا کر دیتی ہے، نروس سسٹم کام نہیں کرتا، مزید Memory loss، جیسے مسائل بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ابھی تک اس بیماری کے اسپیشلائزیشن ٹیسٹ صرف امریکی ریسرچ سینٹرز تھامس جیفرسن یونیورسٹی اور مایو کلینک جیسے اداروں میں ہی ہیں، ویسے یورپ میں بھی اس پر کافی کام ہو رہا ہے، لیکن اس بیماری کے لئے FDA-standard approved disease modifying treatment کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے۔
اس بیماری میں ابھی تک نیورولوجی گیسٹرو انٹرولوجی، پلمونو لوجی، آرتھو پیڈیک کے علاوہ نیوٹریشن تھراپی کی ٹریٹمنٹ کے حوالے سے ریسرچ ہورہی ہے، اس کی علامات پر بنیادی میڈیکیشن کی ادوایات بھی چونکہ Patent Medicines ہیں اس لئے اس کی بنیادی تشخیص اور نگہداشت بھی ایک خاصا مہنگا بجٹ ہے۔
کیونکہ مریض جب تکلیف کی طرف جاتا ہے تو گیٹرو مسائل کی وجہ سے مریض کو غذا نگل ے کے مسائل سے بچانے کے لئے گیسٹرو سٹومی ٹیوب لگائی جاتی ہے۔ بہرحال اس میں تو یقینا کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان جہاں تیئس کروڑ کی آبادی کا ملک ہونے کے باوجود ہمارے پاس ملکی سطح پر اس مرض کا ایک بھی رجسٹرڈ ریکارڈ نہیں ہے، اس لئے نہ ہی اس کے لئے کوئی ٹیسٹ میتھڈ ہے اور نہ ہی اس کی آگاہی کی ضرورت ہے، کیونکہ نہ ڈھولا ہوسی نہ رولا ہوسی۔