سپریم کورٹ کے متنازعہ فیصلے نے نیا محاذ کھول دیا

سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعلی پنجاب پرویز الہیٰ کیس کے فیصلے نے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کو ووٹ دینے یا نہ دینے کی ہدایت کا اختیار پارٹی سربراہ کو حاصل ہے یا پارلیمانی سربراہ کو کیونکہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے حالیہ فیصلے میں یہ اختیار پارلیمانی سربراہ کا بتایا گیا ہے۔

یہ بحث اُس وقت شروع ہوئی جب 22جولائی کو سابق وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز شریف کے خلاف ہونے والی تحریک عدم اعتماد کے دوران ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے دونوں امیدواروں کے ووٹوں کی گنتی کے بعد اچانک ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کا خط لہرا کر پرویز الہیٰ کے حاصل کردہ 186ووٹوں کو 176 کی اقلیت میں بدل دیا کہ چوہدری شجاعت حسین نے اپنے خط میں اپنے اراکین کو حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی ہدایت دی ہے لیکن ق لیگ کے دس اراکین نے پارٹی سربراہ کی ہدایت کے برعکس چوہدری پرویز الہیٰ کو ووٹ دیئے ہیں لہذا ان کے ووٹ منسوخ کئے جاتے ہیں اور 179ووٹ حاصل کرنے پر حمزہ شہباز کی جیت کا اعلان کیا جاتا ہے۔

چنانچہ اس غیر متوقع رولنگ پر ق لیگ اور پی ٹی آئی کے اراکین ہڑبڑا اٹھے اور ق لیگ کے سابق وزیرقانون نے چلا کر کہا کہ یہ غیر قانونی فیصلہ ہے کیونکہ آئین میں یہ اختیار پارلیمانی لیڈر کو حاصل ہے مگر دوست محمد مزاری نہ مانے اور انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے سابقہ فیصلے میں یہ اختیار پارٹی سربراہ کو تفویض کیا ہے لہذا میں نے سپریم کورٹ کے حکم کی پیروی کی ہے اگر آپکو اعتراض ہے تو آپ میرے فیصلے کو چیلنج کر سکتے ہیں۔

چنانچہ ق لیگ اور پی ٹی آئی کے اراکین راتوں رات سپریم کورٹ لاہور کی رجسٹری آفس پہنچ گئے اور ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواست دائر کر دی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پہلی سماعت کے دوران ہی نہ صرف حمزہ شہباز کو ٹرسٹی وزیراعلی ٰ رہنے کا حکم دیا بلکہ ڈپٹی سپیکر کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی سپیکر یہاں آکر ہمیں بتائے کہ ہم نے کہاں لکھا ہے کہ اراکین کو ووٹ ڈالنے کا حکم پارٹی سربراہ کو حاصل ہے بلکہ یہ اختیار تو پارلیمانی پارٹی کا ہے اور بظاہر یہ کیس ڈپٹی سپیکر کی غیر آئینی رولنگ کا لگتا ہے ۔

چیف جسٹس کے ان ریمارکس سے ن لیگ اور اسکی اتحادی جماعتوں کو محسوس ہوا کہ فیصلہ ہمارے خلاف آئے گا چنانچہ انہوں نے سہ رکنی بینچ کی بجائے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کردیالیکن انکا یہ مطالبہ رد کر دیا گیا۔ن لیگ اور اسکی اتحادی جماعتوں نے عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کر دیا لیکن اگلے روزفیصلہ سنا دیا گیا جس میں نہ صرف ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو آئینی قرار دیا گیا بلکہ حمزہ کا حلف بھی غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر نہ صرف پاکستان بھر کی بار کونسلز بلکہ سپریم کورٹ کے کئی سابق ججز سمیت آئینی ماہرین انگلیاں اٹھا رہے ہیں ۔انکا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ 63-Aکی تشریح کی بجائے اس میں ایک نئی ترمیم کے مترادف ہے جسکا سپریم کورٹ کو اختیار نہیں۔دراصل آئین کا آرٹیکل 63-Aخود مبہم ہے جس کے مطابق اگر کوئی رکن پارلیمنٹ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے انتخاب میں اپنی پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ کاسٹ کرتا ہے تو اسے نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے ۔

اس سلسلے میں پارٹی سربراہ پہلے اُس رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا اگر پارٹی سربراہ وضاحت سے مطمئن نہیں ہوتا تو وہ ریفرنس سپیکر کو بھیجے گاجبکہ سپیکر چیف الیکشن کمیشن کو بھیجے گا۔ریفرنس موصول ہونے کے 30دن کے اندرالیکشن کمیشن کو اس ریفرنس پر فیصلہ دینا ہو گا اگر چیف الیکشن کمیشن اپنا فیصلہ ریفرنس کے حق میں دے دیتا ہے تو پھر وہ رکن ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اسکی نشست خالی ہو جائے گی ۔

چونکہ اس آرٹیکل میں پارلیمانی پارٹی کا تو ذکر ہے لیکن اسکی وضاحت نہیں کی گئی کہ پالیمانی پارٹی سے مراد پارلیمانی لیڈر ہے یا اسکا سربراہ کیونکہ پاکستان میں کئی ایسی جماعتیں ہیں جنکے سربراہ تو ہیں مگر وہ پارلیمانی لیڈر نہیں مثلاً مولانا فضل الرحمان جو جے یو آئی کے سربراہ ہیں مگر وہ پارلیمنٹ کے رکن نہیں ہیں تو کیا انکو اپنے پارلیمانی اراکین کو ووٹ دینے یا نہ دینے کے احکامات صادر کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

آئین میں پارلیمانی پارٹی کے مبہم الفاظ کی وجہ سے سپریم کورٹ میں مختلف اوقات میں مختلف انداز میں تشریح ہوتی رہی ہے مثلاً ماضی میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ جس میں موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی موجود تھے کے ایک رکن جسٹس شیخ عظمت سعید نے پارٹی سربراہ کے اختیارات کا فیصلہ قلمبند کرتے ہوئے لکھا تھا کہ پارٹی سربراہ کو وسیع اختیارات حاصل ہیں اور پارٹی سربراہ ہی پارٹی کے سارے فیصلے کرتا ہے۔

2016میں نواز شریف کو نا اہل کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے ان کو پارٹی کی قیادت کرنے سے روک دیا تھا اور اسی فیصلے میں اعلی عدلیہ نے کہا کہ پارٹی سربراہ کا فیصلہ کن کردار ہوتا ہے۔2018میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے جسکی سربراہی موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے تھے نے اس فیصلے کو برقرار رکھنے سے انکار کر دیا تھا کہ منحرف ارکان کی رکنیت ختم کی جائے کیونکہ پارٹی سربراہ کی جانب سے اس حوالے سے واضح ہدایات نہیں تھیں۔لیکن سپریم کورٹ کا موجودہ فیصلہ ماضی کے تمام فیصلوں کے برعکس ہے اسی لئے تمام آئینی ماہرین نے فل بینچ قائم کرنے کی حمایت کی تھی تاکہ آرٹیکل 63-A کی واضح تشریح ہو سکے مگر سپریم کورٹ نے یہ مطالبہ نہ مان کر اپنے فیصلے کو تاریخ کا متنازعہ ترین فیصلہ کروا لیا ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button