بچی کو جنم دینے کے بعد حفیظہ چل بسی
حفیظہ کا انتقال31 سال کی عمر میں ہوا، جس کی شادی ایک 45 سالہ محنت کش سے ہوئی تھی، یہ جوڑا ناخواندہ اور ایک ایسے دورافتادہ گاؤں میں انتہائی غربت کی حالت میں زندگی بسر کر رہا تھا جہاں نہ تو سفری اور نہ ہی صحت کی سہولت موجود تھی۔
حفیظہ کی جب شادی ہوئی تو اس کی عمر صرف انیس برس تھی اور شادی کے بارہ سال کے دوران وہ دس بار حاملہ ہوئیں، ان کے ہاں سات بچوں کی پیدائش ہوئی جب کہ تین مرتبہ اسقاط حمل ہوا۔ حفیظہ نے جن سات بچوں کو جنم دیا ان میں سے صرف ایک لڑکا اور دو لڑکیاں زندہ بچیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حفیظہ نے چار بچوں کو اپنی عمر کے آخری تین سال میں جنم دیا۔
حفیظہ کو نہ تو کوئی بیماری تھی اور نہ ہی اس نے کبھی خاندانی منصوبہ بندی کا کوئی طریقہ اپنایا تھا۔ اپنے آخری حمل کے دوران وہ چار مرتبہ ایک طبی ماہر (سپیشلسٹ) کے پاس گئیں جس نے اسے خون کی کمی لاحق ہونے کا بتایا اور آئرن اور کیلشیم کی گولیاں تجویز کیں۔ جیسے ہی حفیظہ کو زچگی کا درد شروع ہوا اس نے ہسپتال پہنچنے کے لئے ایک گاڑی بک کرائی، ہسپتال تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر تھا۔
راستے میں گاڑی کی گیس (فیول) ختم ہو گئی تاہم وہاں سے گزرنے والے ایک موٹر سائیکل سوار نے انہیں کچھ پٹرول دیا تاکہ وہ گیس بھروانے کے لئے گیس اسٹیشن تک پہنچ جائیں، یوں سرکاری ہسپال پہنچنے میں حفیظہ کو تین گھنٹے لگ گئے۔ ہسپتال پہنچنے پر فوری طور پر ایک ڈاکٹر نے حفیظہ کا معائنہ کیا، اس کا بلڈ پریشر ( فشار خون) بہت ہائی تھا، اس نے ایک بچی کو جنم تو دیا لیکن اس کے ہائی بلڈپریشر پر قابو نہیں پایا جا سکا اور بچی کی پیدائش کے بیس منٹ کے بعد وہ چل بسیں۔
یوں حمل کے باعث ہائی بلڈ پریشر حفیظہ کی موت کی وجہ بن گیا۔ حفیظہ اپنی پوری شادی شدہ زندگی میں یا تو حاملہ رہی یا پھر بچوں کو دودھ پلاتی رہی۔ یقیناً اس عرصے کے دوران وہ بہت سے صحت کی دیکھ بھال کرنے یا طبی مشورے دینے والوں سے ضرور رابطے میں آئی ہوں گی، لیکن خاندانی منصوبہ بندی کو کبھی بھی اس کی دیکھ بھال کے ساتھ مربوط نہیں کیا گیا۔
جس طرح صحت کی سہولیات ہر ماں بننی والی خاتون کا بنیادی حق ہے اسی طرح حمل میں مناسب وقفہ بھی خاتون اور بچے کی صحت کیلئے بہت ضروری ہے۔