اقبال کا شاہین راستے سے کیوں بھٹک گیا؟
علامہ اقبال کی کی شاعری میں ہمیں بعض الفاظ اور علامات بار بار نظر آتی ہیں، ان میں سے ایک "شاہین” ہے۔ شاہین سے اقبال کی کیا مراد ہے؟ انہوں نے بار بار اس کا ذکر کیوں کیا؟ اور خاص طور پر امت مسلمہ کے نوجوانوں کو شاہین صفت دیکھنے کی تمنا کیوں کی؟ دراصل اقبال کی شاعری میں شاہین ایک علامت، رمز، تشبیہ اور استعارہ ہے، لیکن یہ کوئی عام اور اتفاقی شاعرانہ تخیل اور تشبیہ نہیں، بلکہ اقبال کے لگے بندھے اور سوچے سمجھے فکری نظام میں اس کی خاص اہمیت ہے۔
اقبال کی شاعری جس دور سے تعلق رکھتی ہے، وہ برصغیر میں انگریزی استعمار کا دور تھا، جس کے زیر اثر مسلمانوں کے اخلاق و عادات، بود و باش، سوچ و بچار، تمدن و ثقافت اور فکر و عمل میں وہ بانکپن نابود ہو گیا، جو ماضی میں ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ چونکہ علامہ اقبال نہ صرف ایک آفاقی شاعر تھے بلکہ ایک عظیم دانشور فلسفی اور مفکر تھے، اس لیے انھیں مسلمانوں بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کے اندر اعلیٰ سیاسی، فکری، علمی، اخلاقی، عملی اور روحانی صفات مطلوب تھیں۔
ان کے ہاں ان صفات کی تعبیر کے لیے بطور علامت شاہین کے خدوخال آشکار ہوئے، کیونکہ شاہین ان تمام صفات سے آراستہ ہے۔شاہین کی سب سے پہلی خوبی یہ ہے کہ وہ تمام پرندوں میں سب سے بلند پرواز پرندہ ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ پندرہ ہزار فٹ بلندی پر پرواز کر سکتا ہے۔ اقبال اس سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ شاہین کی طرح مسلم نوجوان کو اپنی سوچ اور عزائم ہمالیہ کی طرح بلند رکھنے چاہییں اور زندگی جیسی قیمتی متاع کو اعلی مقاصد میں صرف کرنا چاہیے۔
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام ترا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
شاہین کی دوسری بڑی خصوصیت جو اسے دیگر پرندوں سے ممتاز کرتی ہے وہ نگاہ اور نظر کی تیزی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہین کی نگاہ انسانی نظر سے دس گنا زیادہ تیز ہوتی ہے اور وہ تین کلو میٹر کے فاصلے سے اپنا شکار دیکھ لیتا ہے، جس سے اقبال کا یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ مسلم نوجوان کو حالات حاضرہ، گرد و پیش، واقعات و حادثات اور اپنے دشمن پر ہر وقت نگاہ رکھنا ہوگی۔
افسوس صد افسوس شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
شاہین کی ایک اور خوبی ہے کہ وہ باقی پرندوں کے برعکس آندھی، طوفان اور بادِ مخالف سے گھبرانے کی بجائے ان عوامل کی مشکلات سے بے خوف ہوکر انہیں اپنی بلند پروازی کا ایک ذریعہ خیال کرتا ہے۔ مسلم نوجوان کو یہی پیغام دیا گیا کہ وہ بھی شاہین کی طرح زندگی کی رکاوٹوں اور نامساعد حالات سے خائف ہونے کی بجائے ہمت و حوصلے کے ساتھ زندگی کا سفر جاری رکھے، یہی رکاوٹیں اس کے عروج اور بلندی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
شاہین کی یہ صفت ہے کہ وہ اپنے ہم جنسوں کے علاوہ دوسری نسل کے پرندوں کے ساتھ نہ رہنا پسند کرتا ہے اور نہ ہی اڑنا ناپسند کرتا ہے۔ اقبال اس سے مسلم نوجوان کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ وہ بھی غیروں اور اسلام دشمنوں کے ساتھ نشست و برخاست اور بودوباش اختیار نہ کریں اور نہ ہی بری عادات کے مالک، پست سوچ کے حامل اور اغیار سے مرعوب لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ و رسم شاہبازی
شاہین کی ایک اور امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ ہمیشہ تازہ شکار کھاتا ہے، باسی شکار نہیں کھاتا۔ مسلم نوجوان کو اقبال کی یہی تعلیم ہے کہ وہ تازہ فنون سیکھ کر دنیا میں نہ صرف اپنا قد کاٹھ بڑھا سکتا ہے بلکہ جدید سائنسی علوم حاصل کرکے نئے جہان دریافت کر کے خود کو ناقابل تسخیر اور باوقار بنا سکتا ہے۔
نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے
شکار مردہ سزاوار شاہباز نہیں
حیاتیات کی عکاسی کرتے مخصوص ٹیلی ویژن پر یہ منظر تو اکثر نے دیکھا ہو گا کہ شاہین اپنے شکار کو تاک لینے کے بعد دسیوں مشکلات اور دشواریوں کے باوجود تن آسانی کا شکار ہوئے بغیر اپنے ہدف کو حاصل کرتا ہے۔ اس میں مسلم نوجوان کے لیے یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ زندگی کی منزل و مقصد متعین کرنے کے بعد راستے کی دشواریوں اور الجھنوں کے خوف و خیال سے تن آسانی کا شکار نہ ہو، بلکہ حرکت و عمل اور عزم و حوصلہ کے ساتھ منزل کی طرف بڑھتا رہے۔
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد
شاہین کا ایک نمایاں وصف غیرت اور خودداری ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا شکار خود کرتا ہے، کسی دوسرے کا کیا شکار کھانا اسے گوارا نہیں۔ اس میں مسلم نوجوان کے لئے یہ پیغام ہے کہ وہ بھی غیرت و خود داری کا مظاہرہ کر کے کسب حلال کرے اور دوسروں کے ہاتھوں کی طرف نہ دیکھے، کیونکہ جو لوگ محنت نہ کر کے دوسروں کے دست نگر کے سوالی بن جاتے ہیں، ان کی غیرت، خود داری اور آزادی نیلام ہو جاتی ہے۔
شاہین کی ایک اور خصوصیت ہے اور وہ ہے فقر اور درویشی۔ شاہین کسی بھی خطے کو اپنا مستقل ٹھکانہ و مستقر بنا کر اپنا آشیانہ و گھونسلا نہیں بناتا۔ اقبال کا اس سے مقصود مسلم نوجوان کی فکری تربیت کرنا ہے کہ وہ اپنی استعداد و صلاحیت کو صرف دنیا سنوارنے پر صرف کرنے اور دنیا کی رنگینیوں میں کھو جانے کی بجائے استغنا اور قناعت سے کام لے اور اپنی آخرت سنوارنے کی فکر کرے۔
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
کل کی طرح آج بھی اقبال کے شاہین کا فہم ضروری ہے، تاکہ عصر حاضر کے مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں میں غیرت مندی، سخت کوشی، خودداری، بلند پروازی، عالی ہمتی، بلند حوصلگی، استغناء اور بے نیازی جیسی صفات پیدا ہوں، جن کی بدولت وہ ماضی کا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ کاش! ہم پیغام اقبال کو سمجھ لیں۔