پابلو پکاسو اور ایک غلط فہمی کا ازالہ
دنیائے مصوری کا بے تاج بادشاہ مانا جانے والا پابلو پکاسو (Pablo Picasso) 25 اکتوبر 1881ء کو ملاگا (سپین) میں پیدا ہوا، اس کا والد جوز بلاسکو (José Blasco) بارسلونا میں اکیڈمی آف آرٹس میں پروفیسر تھا، پکاسو 1896ء میں اس اکیڈمی میں داخل ہوا، والد سے مصوری کے ابتدائی اصول سیکھے۔ 1904 میں اس نے پیرس جیسے آرٹ کے مرکز میں (Bateau Laboir کے نام سے) اپنا سٹوڈیو قائم کیا۔
اس اسٹوڈیو میں اس نے جان فشانی، عرق ریزی اور جہدِ مسلسل سے شہرہ آفاق شاہکار فن پارے بنائے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نیویارک میں کرسٹیز نیلام گھر میں صرف گیارہ منٹ کی بولی کے دوران اس کی ایک پینٹنگ 17 کروڑ ڈالر میں، ایک پینٹنگ 10 کروڑ ڈالر میں اور ایک پینٹنگ 4 کروڑ ڈالر میں فروخت ہوئی۔
امریکہ کے شہر لاس ویگاس کے بیلا گیو ہوٹل میں ایک پینٹنگ دس کروڑ ڈالر میں، اسی طرح ایم جی ایم ہوٹل کی بولی میں ایک پینٹنگ اڑھائی کروڑ ڈالر میں اور ایک دوسری پینٹنگ 95 لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئی۔ ایک دن پکاسو پیرس کی ایک سڑک پر چل رہا تھا کہ اس پر ایک عورت کی نظر پڑ گئی، اتفاق سے عورت نے اس کو پہچان لیا اور فوراً لپک کر اس کے پاس پہنچ گئی۔
ہیلو ہائے کے بعد اس سے کہنے لگی، "جناب! میں آپ کی بہت بڑی مداح ہوں، مجھے آپ کی نقاشی، مصوری اور آرٹ کے فن پارے بہت پسند ہیں، کیا آپ میرے لیے ایک پینٹنگ بنانا پسند کریں گے؟”پکاسو مسکرا کر بولا، "میں یہاں خالی ہاتھ ہوں، میرے پاس ضروری اوزار نہیں، البتہ پھر کبھی تمہارے لیے پینٹنگ بناؤں گا۔”
عورت بہ ضد تھی کہ جانے پھر کب ملاقات ہو، مجھے ابھی جیسے ممکن ہو پینٹنگ بنا دو۔” پکاسو نے جیب سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا، فٹ پاتھ پر بیٹھا اور کاغذ کو گھٹنے پر رکھ کر 10 منٹ میں ایک تصویر بنا کر عورت کے حوالے کرتے ہوئے کہا، "یہ لو، تمہیں اس کے بدلے دس لاکھ ڈالر بہ آسانی مل سکتے ہیں۔”عورت بہت حیران ہوئی، تجسس میں گھری، قیمت معلوم کرنے بازار چلی گئی، تب اسے یقین آیا کہ واقعی پکاسو نے درست بتایا۔
دوبارہ بھاگتی پکاسو کے اسٹوڈیو میں پہنچ کر کہنے لگی کہ "جناب! آپ نے ٹھیک کہا، اس تصویر کی قیمت 10لاکھ ڈالر سے بھی زیادہ ہے، آپ مجھے بھی یہ فن سکھا دیں” پکاسو نے اس کی دلچسپی دیکھ کر ہامی بھر کر سکھانے کا عمل شروع کر دیا۔ عورت نے کچھ ضروری اشارات، نکات اور رموز سیکھنے کے بعد دس گھنٹوں میں ایک پینٹنگ مکمل کر لی۔ وہ اس پینٹنگ کو جب بازار لے گئی تو پتہ چلا کہ اس کی قیمت صرف ایک ڈالر ہے۔
عورت نے حیرانی اور پریشانی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ پکاسو سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے آپ کی صرف 10 منٹ میں ایک معمولی کاغذ پر تیار کی گئی پینٹنگ کی قیمت 10 لاکھ ڈالر، جبکہ میری 10 گھنٹوں میں اعلی کاغذ پر تیار کی گئی پینٹنگ صرف ایک ڈالر کی؟ تب پکاسو نے نہایت ہی فکر انگیز جواب دیا، "آپ ایک بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں، آپ کو میرے صرف وہ دس منٹ ہی نظر آتے ہیں، اس مقام تک پہنچنے کے پس منظر میں میری متواتر تیس سال کی جان فشانی، مغز کھپائی اور جہدِ مسلسل کو آپ بھول گئیں۔”
قارئین! اس عورت کی طرح ہم بھی ایسی ہی غلط فہمی کا شکار ہو کر اسلامی معاشرے میں ائمہ و خطباء جیسے امت کے مقدس ترین طبقے کا لاشعوری طور پر استحصال کر رہے ہیں، جو ہمارے زوال آمادہ ہونے کی ایک علامت ہے۔ ہمارا ناقص خیال ہے کہ امام مسجد کا پنجگانہ نماز کی امامت پر اور خطیب کا جمعہ کے وعظ و خطبہ پر ایک ایک گھنٹہ لگتا ہے، ڈیوٹی کا یہ کوئی طویل اور مشکل دورانیہ نہیں ہے۔ حالانکہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ پابلو پکاسو کی طرح ہمارے امام اور خطیب کو اس مقام تک پہنچنے کے لئے پس منظر میں کن صبر آزما مرحلہ ہائے شوق سے گزرنا پڑا۔
لہذا مساجد کی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ کسی غلط فہمی کا شکار ہوئے بغیر مادیت اور مہنگائی کے اس دور میں امت کے اس محسن طبقے کی ضروریات کا ادراک اور احساس کرکے معقول وظائف مقرر کئے جائیں، مخیّر حضرات بھی موقع بہ موقع تعاون و ہدیہ کی صورت میں تعاون کریں اور سال بہ سال اعزازیے میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔ پابلو پکاسو نے تو ایک جملے سے اس عورت کی غلط فہمی دور کر دی، خدا جانے ہماری غلط فہمی کب دور ہو گی؟