سلطان صلاح الدین ایوبی اور موجودہ پاکستانی سیاست

یہ 1187ء کی بات ہے، مسلمانوں کے قبلۂ اول پر صلیبیوں اور عیسائیوں کے قبضے کو 91 سال کا عرصہ گزر گیا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں سے بیت المقدس دوبارہ چھین لینے کی عسکری مہم کا آغاز کیا، جس کے جواب میں یورپ نے اپنے حشر ساماں مادی وسائل اور آتش بداماں جنگی و جنونی لشکر کے ذریعے مسلمانوں کو پوری طرح کچلنا چاہا۔

اس جنگ کی شدت کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ بقول مصنف "تاریخ امت مسلمہ” اس جنگ میں یورپ کا شاید ہی کوئی شہزادہ، نواب یا جاگیردار شامل نہ ہوا ہو۔ صلیبیوں کی خیمہ گاہ میں فرانس، جرمنی، آسٹریا، جنیوا، اٹلی، وینس، صقلیہ اور ہالینڈ سمیت بیسیوں ریاستوں اور قوموں کے افراد یکجا نظر آتے تھے۔

عیسائیوں کے مرد ہی نہیں، عورتیں بھی اس لڑائی میں شریک تھیں۔ یورپ کی کئی شہزادیاں اور نواب زادیاں تھیں، جو اپنا عیش و آرام قربان کر کے اپنے سپاہیوں کی ہمت بڑھانے لشکر میں موجود تھیں۔ القدس، بیت المقدس اور اس کے اطراف کے علاقوں کو فتح کرنے کے لیے لڑی جانے والی اس پانچ سالہ لڑائی میں سلطان اور صلیبیوں، ہر دو طرف کا بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا، لیکن سلطان اپنی دیرینہ بیماری کے باوصف میدان جنگ میں بنفس نفیس موجود رہے اور مسلمانوں کی ہمت اور جوش بڑھاتے رہے۔

ایک موقع پر صلیبیوں کو مزید کمک کی ضرورت پڑی، اب کی بار برطانیہ کا بادشاہ رچرڈ، فرانس کے بادشاہ فلپ آگسٹس کے ہمراہ دیگر یورپی حکمرانوں اور متعدد مذہبی رہنماؤں سے بہت بڑی دولت اور بے تحاشا اسلحہ لے کر قیادت کرنے اس لڑائی میں خود شریک ہو گیا، تاکہ القدس سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دے۔

عیسائیوں کے مذہبی جذبات ابھارنے کے لئے رچرڈ اور اس کے مشیروں نے اس لڑائی کو "صلیبی جنگ” کا نام دیا۔ تب عیسائیوں کے ٹڈی دل نے مسلمانوں پر مظالم کے ایسے پہاڑ توڑے کہ زمین تھرا اٹھی اور آسمان کی پیشانی عرق آلود ہو گئی، مساجد کی بے حرمتی کی گئی، شہر تہس نہس کر دیے گئے، کتنی ہی عزت مآب خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں اور آبادیاں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی تھیں۔

سلطان صلاح الدین ایوبی مسلمانوں کے ایک عظیم حوصلہ مند قائد کے روپ میں سامنے آیا، اس کے تابڑ توڑ حملوں سے رچرڈ کی فوج میں بد دلی پھیل گئی، قریب تھا کہ دشمن میدان سے فرار ہو جاتا، کہ اسی اثناء سلطان کو خبر ملی کہ رچرڈ بیمار ہو گیا ہے۔ اس عظیم انسان نے یہ خبر سنتے ہی جنگ روک دی، حالانکہ سلطان سمجھتا تھا کہ یہ دشمنان دین کو شکست دینے کا بہترین موقع ہے۔ پھر اسے اطلاع ملی کہ کسی بھی معالج اور ڈاکٹر کے علاج سے رچرڈ تندرست نہیں ہو رہا، تو یہ ایک مسلمہ تاریخی واقعہ ہے کہ سلطان نے رواداری اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے طبیب خاص کو علاج کے لیے رچرڈ کے پاس بھیج دیا۔

قریبی لوگوں نے خبردار کیا کہ کہیں سلطان ایوبی کا طبیب علاج کے بہانے زہر دینے نہ آیا ہو۔رچرڈ کو اطلاع ملی تو اس نے کہا "آنے دو، میں اسی سے علاج کرواؤں گا، کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ سلطان ایوبی اسلام کا علم بردار، اسلامی تعلیمات سے روشناس اور اسلامی قرینوں سے آگاہ ہے۔ وہ دشمن کو میدان میں دیکھ کر بہادری سے اس کے خلاف لڑتا، دشمن کو مسافر دیکھ کر خبرگیری اور مہمان نوازی کرتا اور دشمن کو بیمار دیکھ کر تیمارداری اور علاج کرتا ہے۔

آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اسلام اور اسلامی اوصاف کی حامل سلطان کی فوج یہ جنگ ضرور جیت جائے گی اور ہم ہار جائیں گے۔” تاریخ بتاتی ہے کہ پھر آخر کار ایسا ہی ہوا اور مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کر لیا۔قارئین! سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سلطان ایوبی جنگ کے ایک اہم فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ کر دشمنان اسلام کے ساتھ ایسی رواداری کا مظاہرہ کر سکتا ہے تو ہم ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے اپنے سیاسی حریف کے ساتھ کیوں نہیں کر سکتے؟

اسلام کی نام لیوا مخالف پارٹی کے ساتھ فراخ قلبی کا مظاہرہ کیوں نہیں کر سکتے؟ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ریاست کے معاشی استحکام کے لیے کیوں مل بیٹھ نہیں سکتے؟ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر باہمی مشاورت کیوں نہیں کر سکتے اور دوسروں کی زیادتیوں کو کیوں فراموش نہیں کر سکتے؟ کب تک ہم اسی روش بیمار میں مبتلا رہ کر تماشا گاہ اہل عالم بنے رہیں گے؟ سوچیے اور ضرور سوچیے!

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button