تماشا دیکھنے کیلئے کاش! آج ہارون الرشید ہوتا
ہارون رشید کے دربار میں ایک شخص حاضر ہوا اور آداب بجا لائے۔ ہارون رشید نے اس سے آنے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میرے پاس ایک فن ہے، آپ اور دیگر ارکان دولت و سلطنت کے سامنے جس کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہوں۔ فن میں مہارت اور ہاتھ کی صفائی کا ایسا مظاہرہ شاید آپ اور آپ کی کابینہ نے اس سے پہلے نہ دیکھا ہو گا۔
چنانچہ ہارون الرشید نے اس کی فرمائش پر اس کو ایک مقررہ تاریخ دی۔ کچھ دن گزرے کہ وہ طے شدہ تاریخ آگئی۔ وہ شخص ہارون الرشید کے دربار میں مقررہ وقت پر پہنچ گیا۔ اب اس نے بادشاہ سلامت سے دربار میں مظاہرہ کرنے کی اجازت طلب کی، اس کو اجازت مل گئی۔ اس نے صحن کے بیچوں بیچ ایک بڑی سوئی گاڑھ دی، پھر کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر ایک چھوٹی سوئی سے بڑی سوئی کے ناکے کا نشانہ لیا اور چھوٹی سوئی کو بڑی سوئی کی طرف بڑی مہارت سے پھینکا، دربار میں موجود ہر شخص کو اس وقت بڑی حیرت ہوئی جب چھوٹی سوئی درست نشانے کی بدولت بڑی سوئی کے ناکے میں جا اٹکی۔
لوگ عش عش کر اٹھے، ہر طرف سے واہ واہ کی صدائیں بلند ہوئیں، کسی نے بڑھ کر اس کے ہاتھ چومے تو کسی نے اس کے ہاتھ کی صفائی پر اس کا ماتھے کو بوسہ دیا۔ اب اس شخص نے داد طلب نگاہوں سے ہارون الرشید کو دیکھا، ہارون رشید نے تھوڑی دیر توقف کیا، پھر فرمان جاری کیا: اس شخص کو ایک دینار انعام دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی پیٹھ پر دس درے (کوڑے) مارے جائیں۔
درباریوں کو اس شخص کے ہاتھ کی صفائی کے مظاہرے سے اتنی حیرانی نہیں ہوئی، جتنی بادشاہ کے اس دو متضاد حیثیتوں کے حامل فیصلے سے ہوئی۔ ایک وزیر نے ہمت کر کے بادشاہ سلامت سے جان کی امان حاصل کر کے سوال پوچھنے کی اجازت چاہی۔ بادشاہ کے اجازت دینے پر اس نے اس فرمان کے بارے میں سوال پوچھا کہ بادشاہ سلامت! آپ نے اس کو ایک دینار انعام دینے کا حکم دیا، یہ بات تو اس کی مشاقی اور مہارت کی وجہ سے سمجھ میں آئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اس کو دس کوڑے مارنے کا حکم دیا، یہ ہمارے لئے ناقابل فہم ہے۔ اس نے کونسا ایسا جرم کیا ہے کہ جس کی وجہ سے آپ نے اسے اس سزا کا حکم دیا؟
تب بادشاہ نے کہا کہ انعام تو اس کی مشاقی اور ذہانت کی وجہ سے دیا، جبکہ سزا کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنی مہارت اور ہاتھ کی صفائی کا یہ مظاہرہ دکھا کر ہمارا قیمتی وقت برباد کیا ہے۔ قارئین! ملک پاکستان میں دو تین دن بلکہ دو تین ماہ سے ایسی مہارتوں اور ہاتھ کی صفائیوں کے مظاہرے دکھا کر قوم کا قیمتی وقت برباد کیا جا رہا ہے۔ کاش! ایک ہارون الرشید ہمارے زمانے میں ہوتا تو یقیناً کتنے ہی مشاق اور ہاتھ کی صفائی رکھنے والوں کی پیٹھ پر کوڑے برس رہے ہوتے اور شاید قوم کا یہ قیمتی وقت ایسے بے مصرف اور بے محل مظاہرے دیکھنے میں صرف نہ ہوتا، جس کی تازہ مثال کل پنجاب اسمبلی کے انتخابی اجلاس کے موقع پر پوری قوم کے سامنے ہے۔