خاتون جو حضرت یحییٰ اور زکریا کے قتل کا سبب بنی
بنی اسرائیل کے لوگوں میں فساد اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا ‘ لیکن ان کا بادشاہ اس سے غافل تھا ‘ وہ اپنی بھابھی (یا کسی اور غیر محرم عورت کے) عشق میں مبتلا ہو کر …… اس سے شادی کرنا چاہتا تھا جو کہ شریعت موسوی میں جائز نہیں تھا۔ بادشاہ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام سے اس کے جواز کا فتویٰ لینا چاہا لیکن انہوں نے فرمایا کہ تیرے لیے ایسا کرنا قطعاً حلال نہیں ہے۔ بادشاہ کی محبوبہ نے جب یہ سنا تو وہ شدید برہم ہوئی اور اپنے دل میں حضرت یحییٰ علیہ اسلام سے چھٹکارے کی ٹھان لی۔
اس کا نام سالونی تھا ‘ وہ بہت خوبصورت اور ماہر رقاصہ تھی۔ اس کی ماں نے اسے یہ سازش سمجھائی کہ تو بادشاہ کے سامنے عریاں رقص پیش کر‘ اسے خوب شراب پلا اور جب وہ تجھ سے اپنی خواہش چاہے تو اس سے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے سر کا مطالبہ کر دینا۔ سالونی نے اپنی ماں کے کہنے پر عمل کیا اور دوران رقص اپنا لباس اُتار دیا اور بادشاہ کو شراب پلاتی رہی اور اپنی جانب خوب مائل کرتی رہی‘ جب بادشاہ نے اس سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو اس نے اپنا مطالبہ اس کے سامنے پیش کر دیا۔
بادشاہ نے اس کی دلداری کے لیے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کا حکم دے دیا۔ اور جب اس ظالم بادشاہ کے کہنے پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا اور اس کا سر سونے کے طشت میں رکھ کر بادشاہ کے سامنے لایا گیا تو معجزہ کے طور پر اس کٹے ہوئے سر سے بھی وہی ندا آئی کہ : اے بادشاہ! تیرے لیے ایسا کرنا حلال نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر بادشاہ اور سب لوگ دہشت زدہ ہو گئے۔
ادھر حضرت زکریا علیہ السلام کو جب اپنے بیٹے کی شہادت کا علم ہوا تو انہوں نے قاتلوں کے لیے بدعا کی اور وہ ہلاک ہو گئے۔ اس بات کا علم جب عام لوگوں کو ہوا تو انہوں نے حضرت زکریا کو انتقام کی غرض سے مسجد کے محراب میں ہی شہید کر ڈالا۔
اس واقعہ کا رونما ہونا تھا کہ بنی اسرائیل پر مصائب ٹوٹ پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک جابر بادشاہ بخت نصر کو مسلط کر دیا جس نے انہیں تباہ و برباد کر کے شہر اور ہیکل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور بہت سے لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ سچ ہے کہ ظلم کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا اور ظالم لوگوں کو وہ اسی طرح انجام بد کا شکار کر دیتا ہے۔
علامہ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی شہادت کا قصہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: کہ آپ کی شہادت کے کئی اسباب تھے جن میں سے مشہور یہی واقعہ ہے۔