خوبی ہو تو انسان دشمنوں میں بھی دوست پا لیتا ہے
لارڈ ولیم وینٹک انیسویں صدی کے ربع ثانی (1828-1835ء) میں ہندوستان کے گورنر جنرل تھے۔ انہوں نے ایک بار حکم دے دیا تھا کہ تاج محل کو گرا دیا جائے مگر عملاً وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کا انکشاف 7فروری 1900ء کو اس وقت کے وائسرائے لارڈ کرزن نے کیا تھا۔ لارڈ کرزن نے کلکتہ کے ایک جلسۂ عام میں کہا کہ ان دنوں ایسٹ انڈیا کمپنی کی اقتصادی حالت خراب ہو گئی تھی ۔
کمپنی کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے سابق برطانوی گورنر جنرل (لارڈ وینٹک) نے چاہا کہ تاج محل کے سنگ مرمر کو فروخت کریں۔ اس سے ان کو اس زمانہ میں ایک لاکھ روپیہ حاصل ہونے کی امید تھی۔ جب یہ خبر پھیلی تو لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔ اب لارڈ وینٹک بگڑ گئی اور انہوں نے غصہ میں آ کر یہ حکم دیا کہ تاج محل کو گرا کر زمین کے برابر کر دیا جائے۔ ان کے اس حکم کے بعد عوام کی مخالفت اور زیادہ بڑھ گئی۔
ہندو اور مسلمان دونوں نے مل کر احتجاج کیا ‘ حتیٰ کہ اندیشہ یہ پیدا ہو گیا کہ اگر تاج محل گرایا گیا تو عوامی بغاوت پیدا ہو جائے گی۔ لارڈ وینٹک کے مشیروں نے ان کو صورت حال کی نزاکت بتائی۔ چنانچہ انہوں نے اپنا حکم واپس لے لیا۔ (نو بھارت ٹائمز، 18جون 1969ء ) ’’تاج محل کو عوام نے نہیں بچایا‘‘ اس خبر کو پڑھ کر ایک شخص نے کہا: ’’بلکہ تاج محل کو اس کے حسن نے بچایا ۔ تاج محل اگر اتنا حسین نہ ہوتا تو برطانوی اقتدار کے مقابلے میں اس کو ہندوؤں اور مسلمانوں کی اتنی بڑی حمایت حاصل نہیںہو سکتی تھی۔‘‘
عمارت کا یہی انجام اس کے معماروں کے لیے بھی مقدر تھا لیکن افسوس کہ معمار اپنے اندر وہ ’’حسن‘‘ پیدا نہ کر سکے ۔ جو انہوں نے سنگِ مر مر کے خاموش مجموعہ میں اپنی مہارت سے پیدا کر دیا تھا۔ آدمی کے اندر کوئی خوبی ہو تو یہ خوبی ہی اس کی زندگی کی سب سے بڑی ضمانت ہوتی ہے۔ وہ دشمنوں میں بھی اپنے دوست پا لیتا ہے ۔ اغیاروں کی صف میں بھی اس کو اپنے قدردان مل جاتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ کسی کے اندر کوئی واقعی خوبی ہو ‘ اس کے باوجود دنیا میں اس کا اعتراف نہ کیا جائے۔
تاہم اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی کا یہ حسن سانپ کا حسن نہ ہو ۔ ایک سانپ خواہ کتنا ہی حسین ہو آدمی اس سے محبت نہیںکر سکتا۔ اسی طرح جس آدمی کا حال یہ ہو کہ اس کے اندر خوبی تو ہو مگر اسی کے ساتھ اس کی زبان میں ’’ڈنک‘‘ ہو ‘ وہ لوگوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کو چیلنج کرنے لگے‘ وہ لوگوں کے ساتھ تعلقات میں بارہا جارحیت پر اتر آتا ہو ‘ وہ اپنی جذباتی کارروائیوں سے لوگوں کو اپنا مخالف بنا لے۔ ایسا آدمی خواہ کتنا ہی زیادہ خوبیوں والا ہو ‘ لوگوں کا محبوب نہیں بن سکتا۔ تاج محل لوگوں کا محبوب اسی وقت بنتا ہے جب کہ وہ خاموش حسن میں ڈھل جائے۔ اگر وہ جارح حسن کا نمونہ ہو تو ایسے تاج محل کو کوئی نہیں بخشے گا۔