سائنسی ایجادات میں مسلم سائنسدانوں کا کردار
علم کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انسان کو فرشتوں پر برتری عطا کی اور اشرف المخلوقات کے عہدے پر فائز فرمایا۔ قرآن مجیدکی متعدد آیات اور احادیث نبویؐ میں علم کے حصول اور اہمیت پر بہت زور دیا گیا۔ علم ایک ایسی دولت ہے جس کے نہ تو چوری ہونے کا کوئی ڈر ہے اور نہ ہی اسے کوئی دھوکے سے چھین سکتا ہے۔
انسانی تاریخ کی شروعات کے ادوار میں علم و واقفیت کا واحد ذریعہ وحی الٰہی تھا۔ اللہ سبحان تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ، قوانین و ضوابط رسولوں کی معرفت عام انسان تک پہنچتے تھے۔ یہی تعلیم و تربیت کا واحد طریقہ تھا۔ کلام پاک میں اس انداز سے علم عطا کرنے کا کئی جگہ ذکر ہے۔ مثلاً حضرت نوح کو کشتی بنانے کا علم اسی طرح عطا کیا گیا ’’اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنائو‘‘(القرآن)
حضرت یوسف علیہ اسلام سے متعلق ذکر ہے۔
’’اور جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اُسے قوتِ فیصلہ اور علم عطا کیا‘‘(القرآن)
’’یوسف نے کہا ’’یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اُس کے آنے سے پہلے میں تمہیں ان خوابوں کی تعبیر بتادوں گا۔ یہ اُن علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کئے ہیں‘‘۔(القرآن)
اس دور کے انسان کی محدود ضروریات اور محدود وسائل کو اگر ہم ذہن میں رکھیں تو صورت حال سمجھ میں آجاتی ہے۔ تاہم جیسے جیسے دنیا میں انسانوں کی آبادی بڑھی، سماجی ڈھانچہ مضبوط ہوا، ضروریات زندگی میں اضافہ ہوا، علم حاصل کرنے کے دیگر انداز اور طریقے بھی اللہ تعالیٰ نے واضح کر دئے۔ مفکّروں کی کاوشوں سے نئے نئے علوم وجود میں آئے اور ان کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔ امام غزالی ؒ کا قول ہے کہ عقل فعال کی نشو و نما کے لئے عقیدہ کی پاکیزگی اور ایمان کی پختگی پہلی شرط ہے لہٰذا ابتدائی تعلیم مذہبی عقاید اور مذہبی احکامات کے مطابق ہونی چاہئے‘‘۔ تاہم وہ تعلیم کو محدودکرنے کے مخالف تھے۔ اسی لئے انہوں نے جو نصاب تعلیم ترتیب دیا تھا، اس میں اس وقت کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے بُنائی، کھیتی باڑی اور لکڑی کے کام جیسے ہنر شامل تھے۔
اللّٰہ پاک کی طرف سے عطا کی گئی علم اور خصوصی ذہانت سے حضرت انسان نے سائنسی ایجادات کے ذریعے اپنے غیر معمولی تخیل اور صلاحیتوں کے ذریعے ایسے کارنامے انجام دیئے ہیں، جنہوں نے لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو آسان بنایا، عوام الناس میں سائنسی ایجادات اور نئی تخلیق کا شعور بیدار کرنے کے لیے اکیس اپریل کو عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے سائنسی ایجادات نے ہماری زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں آج سائنسی ایجادات کی بدولت زندگی نہایت سہل اور آسان سے آسان تر ہوتی جا رہی ہے۔ چاہے گھریلو کام ہوں یا بڑے پیمانے پر کارخانوں کے معمولات ہر شعبہ ہائے زندگی میں نت نئی سائنسی ایجادات اور آلات کی آمد نے انسان کی زندگی کو بہت آرام پہنچایا ہے اور بلاشبہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ معاشرے کی ترقی میں سائنسی ایجادات نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ایجادات کا سارا کریڈٹ مغربی اور غیر مسلم سائنسدانوں کو دینے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے اگر ہم تاریخ کو پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمان سائنسدانوں کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
دنیا کی مفید اور ضروری ایجادات بیشتر مسلمانوں اور عربوں کی مرہون منت ہیں اور وہ اس وقت ایجاد ہوئی ہیں جبکہ متمدن دنیا میں کہیں اہل یورپ کا ذکر تک نہ تھا۔ ان میں سے بعض کی تو جدید سائنس نقل بھی نہ کر سکی اور بعض کی نقل اتار کر ایجاد کا سہرا اپنے سر سجا لیا۔
مشہور مسلم سائنسدان جابر بن حیان، ابن سینا، ابن الہیثم کے علاوہ محمد بن ذکریارازی دنیا کے پہلے طبیب جنہوں نےتپ دق (ٹی بی) کا علاج اورچیچک کا ٹیکہ ایجاد کیا تھا۔ الجبرا خصوصی طور پر مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ الجبرا کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی ایجاد علم مثلثات (ٹرگنومیٹری) ہے۔ حکم بن ہاشم (ابن المقنع) نے ایک مصنوعی چاند بنایا تھا جو ماہ نخشب کے نام سے مشہور تھا۔ یہ نخشب نامی کنویں سے طلوع ہوتا تھا اور تقریباً دو سو مربع میل کا علاقہ منور کرتا تھا۔
اندلس (اسپین) کے ایک مسلم (سائنسدان) عباس (ابوالقاسم) بن فرناس نے تین چیزیں ایجاد کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ اول عینک کا شیشہ، دوم گھڑی، سوم ایک مشین جو ہوا میں اڑ سکتی تھی۔ ابراہیم الفزازی، خلیفہ منصور کے عہد کا پہلا مسلمان سائنسدان انجینئر تھا۔ جس نے پہلا اصطرلاب تیار کیا تھا۔ ابن سینا کے استاد ابوالحسن نے پہلی دوربین ایجاد کی تھی۔ حسن الزاح نے راکٹ سازی کی طرف توجہ دی اور اس میں تارپیڈو کا اضافہ کیا۔ مسلمانوں کی دیگر صنعتی ایجادات میں بارود، قطب نما، زیتون کا تیل، عرق گلاب، خوشبوئیں، عطر سازی،ادویہ سازی، معدنی وسائل میں ترقی، پارچہ بافی، صابن سازی، شیشہ سازی اور آلات حرب شامل ہیں۔
ابوالقاسم الزہراوی نے مثانہ کی پتھری نکالنے کے لیے جسم کا جو مقام آپریشن کے لیے تجویز کیا تھا آج تک اسی پر عمل ہو رہا ہے۔ عباس بن فرناس وہ عظیم سائنسدان ہے، جس نے دنیا کا سب سے پہلا ’’ہوائی جہاز‘‘ بناکر اڑایا۔ قبلہ کے تعین اور چاند اور سورج گرہن کو قبل از وقت دریافت کرنے، حتیٰ کہ چاند کی گردش کا مکمل حساب معلوم کرنے کا نظام بھی البطانی ابن یونس اور ازرقیل جیسے مسلم سائنسدانوں نے وضع کیا۔
حساب، الجبرا اور جیومیٹری کے میدان میں الخوارزمی نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ ان کی کتاب (الجبر و المقابلہ) سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں بنیادی نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی۔
دنیا کو فائدہ پہنچانے والی سائنسی ایجادات کرنے والے سائنس دان انسایت کے محسن کہلائے۔ جیسے جان لیوا امراض سے بچاؤ کی دوائیں یا ایسی ایجادات جس سے انسان تکلیف اور جہالت سے گزر کر آسانی اور روشنی میں آپہنچا۔ اگر یہاں وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان ان بدقسمت ممالک میں سے ایک ہے جہاں سائنسی تعلیم کا رجحان بہت کم ہے اور یہ دنیا میں سب سے کم سائنسی تخلیقات کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔
گلوبل انوویشن انڈیکس کی سنہ 2020 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا کی سب سے کم سائنسی ایجادات تخلیق کی جاتی ہیں اور اس ضمن میں 131 ممالک میں پاکستان کا نمبر 107 واں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے ملک میں سائنسی سوچ اور تعلیم کے فروغ کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائیں جائیں، معاشرے کو سائنسی تعلیم اور تخلیقات کی طرف راغب کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ورکشاپ، سیمینارز کیے جائیں، مسلمان سائنسدانوں کی تخلیقات معاشرے کے سامنے رکھی جائیں اور نوجوانوں کو بتایا جائے کہ آپ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو آپ سوچتے ہیں جو آپ کے ذہن میں بات آ جائے اسے لکھ لیں کیوں کہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کسی پریشانی کا حل ہو یا تخلیقی خیالات کی آمد عموماً کسی کام کے دوران یا رات بستر میں نیم غنودگی کی حالات میں ظہور پزیر ہوتے ہیں۔
یقیناً اکثر آپ مسئلے کے حل یا تخلیقی خیالات پر نیند کو اہمیت دیتے ہیں اور اس طرح صبح کی آمد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں اور ایک خواب کی طرح خیال بھی اپنی ایک مدہم سی تصویر چھوڑ جاتا ہے۔
کسی بھی کام میں بہتری کے لیے آپ کے دماغ میں کوئی تخلیقی سوچ آئی ہے تو بس پھر ایک قدم اور آگے بڑھیں اور اللّٰہ پاک پر یقین رکھتے ہوئے اس کام کو کر گزریں، اگر ایک دفعہ آپ اپنے تجربے میں کامیاب نہیں ہوتے تو پریشان نہ ہوں ایک کامیاب انسان کا کمال اور بہادری یہ نہیں ہے کہ وہ گرتا نہیں بلکہ کمال تو یہ ہے کہ وہ گرتا ہے اور پھر اللّٰہ پاک کی دی ہوئی صلاحیت اور قوت ایمانی سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اپنے رب تعالیٰ پر مضبوط بھروسہ اور یقین رکھتا ہے کہ میں ان شاءاللہ تعالیٰ ہر حال میں امتحانات سے نکلوں گا اور کامیاب ہوں گا، پختہ توکل، کامل یقین سے آپ یقیناً ایک دن کامیاب ہوں گے۔