زندگی میں کامیابی کا راز بچوں سے سیکھیں
ایک ڈیڑھ دو سال کا بچہ جب گھر میں رہنے والی خواتین کو چلتا پھرتا، مردوں کو کام کاج کرتا اور بڑے بھائیوں کو کھیلتا کودتا دیکھتا ہے، تو اس کے دل میں بھی اپنے قدموں پر کھڑا ہو کر چلنے پھرنے، کام کاج کرنے اور بڑے بھائیوں کے ساتھ کھیلنے کودنے کی امنگ انگڑائی لیتی ہے۔
چنانچہ وہ اپنے آپ کو ان سرگرمیوں کے لیے ذہنی طور پر تیار کر کے عملی کوشش شروع کرتا ہے۔ ابھی اٹھنے نہیں پاتا کہ گر جاتا ہے۔ دوبارہ، سہ بارہ بلکہ سینکڑوں بار اٹھنے کی کوشش کرتا ہے، مگر ہر بار ہی وہ اٹھنے میں ناکام ہو کر گر جاتا ہے۔ اٹھ کھڑے ہونے کی اس کوشش کے دوران میں بارہا وہ منہ کے بل، کبھی پشت کے بل گرتا اور چوٹیں کھاتا ہے، لیکن اپنے ہدف کے حصول میں ہمت ہارتا ہے نہ ہی کوشش ترک کرتا ہے۔
حصول منزل کا جنون اس کو ایک دوسرا رخ اور راستہ سمجھا دیتا ہے۔ اس کی نظر کمروں اور برآمدے میں رکھی کرسی، میز اور چارپائی پر پڑتی ہے، وہ ان چیزوں کے سہارے اٹھ کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے، جس میں بالآخر وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس کامیابی پر اس کے دل کے آنگن میں خوشی کے پھول کھل جاتے ہیں۔ اسی لمحے وہ سوچتا ہے کہ کیا اس کی منزل مراد یہی تھی؟
اسی مقصود کے لئے اس نے یہ ساری کوشش و کاوش کی؟ اس کی ساری تگ و تاز کا یہی ہدف تھا؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اب وہ ان چیزوں کے سہارے بتدریج چلنا شروع کر دیتا ہے، بار بار کی ریاضت سے اس کے اندر ایک اعتماد پیدا ہو جاتا ہے، پھر وہ اپنی ذہنی و جسمانی توانائیوں کو جمع کرکے ان چیزوں کا سہارا لئے بغیر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے، اس دوران سینکڑوں بار اٹھ کر گر جاتا اور گر کر پھر اٹھ جاتا ہے۔
تب وہ لمحہ آ جاتا ہے جب اعتماد کے ساتھ کھڑا ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ چِلّاتا، ہائے ہُو کرتا اور تالیاں بجاتا ہے، لیکن اپنے قدموں پر دو قدم چلنے سے اب بھی قاصر ہے۔تب ماں پہلے پہل اس کی انگلی پکڑ کر چلاتی ہے، اگلے مرحلے پر برآمدے کے ایک سرے پر اپنے ہاتھ میں بچے کی کوئی مرغوب چیز رکھ اور دکھا کر اسے اپنی طرف چل کر آنے کی ترغیب دیتی اور شوق دلاتی ہے، اس طرح کبھی وہ لڑکھڑاتے قدموں سے برآمدے کے وسط تک اور کبھی دوسرے سرے تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
کچھ ہی عرصہ کی اس مشق اور مشقت کے بعد وہ صبحِ خوش جمال آجاتی ہے، جب بچہ پوری خود اعتمادی کے ساتھ چلنے پھرنے اور آخرکار دوڑنے کھیلنے کے قابل بن جاتا ہے۔ بچے کی اس روداد کے ایک ایک مرحلے میں ہمارے لئے ایک سبق، ایک ایک موڑ پر ایک پیغام اور ایک ایک قدم پر ہمارے لیے ایک درس ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے بہت سارے لوگ کوئی ہدف رکھے بغیر ہی زندگی جیسی قیمتی متاع بتا دیتے ہیں اور جو منزل اور ہدف کا تعین کرتے ہیں، ان میں سے کچھ تن آسانی کا شکار ہو کر کامیابی کے خیالی محلات تعمیر کرنے لگ جاتے ہیں اور کچھ ٹھوکریں کھا کر یا وقتی ناکامیوں کی وجہ سے کوشش ترک کر دیتے اور ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔
حالانکہ یہی ٹھوکریں اور یہی وقتی ناکامیاں انسان کی بڑی کامیابیوں کا زینہ اور ضروری حصہ ہیں۔ بقول ابوالکلام آزاد
ٹھوکریں انہی کو لگتی ہیں، جو منزل کے تعاقب میں اپنے قدموں پر چلتے دوڑتے ہیں اور جو ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جائیں، انہیں نہ ٹھوکریں لگتی ہیں نہ ہی منزل نصیب ہوتی ہے۔ لہذا زندگی میں کسی بڑے مقصد و ہدف کا تعین کریں، پھر اس کے حصول کے لیے اٹھتے اٹھتے گرنے، گر گر کر پھر اٹھنے، ٹھوکریں کھانے اور وقتی ناکامیوں کا سامنا کرنے سے گھبرانے کی بجائے مسلسل کوشش اور ہمت سے کام لیں۔ اس طرح ایک وقت ضرور، یقینا ضرور آئے گا، جب آپ اپنی مقررہ منزل پر کامیابی و کامرانی سے پہنچ جائیں گے۔