ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کو کیوں شکست ہوئی؟
پنجاب کے20 حلقوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے غیر حتمی نتائج میں تحریک انصاف کو 15 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے، صوبے کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن جو پنجاب میں بھاری ووٹ بینک کی دعویدار ہے اسے ان انتخابات میں چار نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ ان انتخابات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ہارنے والی جماعت نے نتائج کو تسلیم کیا ہے، مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا کہ ’’ عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہیے، سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، دل بڑا کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں جہاں کمزوریاں ہیں ان کی نشاندہی کرکے انہیں دور کرنے کیلئے محنت کرنی چاہیے، ان شاء اللہ خیر ہوگی، مسلم لیگ (ن) کو کھلے دل سے نتائج تسلیم کرنے چاہئے۔‘‘
ضمنی انتخابات کی ٹائمنگ مسلم لیگ ن کیلئے سود مند نہ تھی کیونکہ حکومت سنبھالنے کے بعد انہیں مشکل فیصلے کرنے پڑے تھے جس کی وجہ سے مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا، یہ فیصلے اگرچہ حکومت کی مجبوری بن گئے تھے مگر اس کے باوجود عوام کی بڑی تعداد اسے ناپسند کرتی تھی، یہ جملے زباں زد عام تھے کہ موجودہ اتحادی حکومت سے تو تحریک انصاف کی حکومت سو درجے بہتر تھی۔ حکومت کی منصوبہ بندی کے مطابق اکتوبر سے پہلے عوام کو ریلیف فراہم کرنا مشکل تھا مگر اسی دوران جب ضمنی انتخابات کا اعلان ہوا تو مسلم لیگ ن کیلئے انتخابات میں جانے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ اتحادی حکومت میں شامل دیگر جماعتوں کی نسبت زیادہ نقصان مسلم لیگ ن کو اٹھانا پڑا ہے، فوری طور پر یہ نقصان ہو گا کہ حمزہ شہباز شریف وزارت اعلیٰ کے عہدے پر برقرار رہنے کا جواز کھو دیں گے، وفاقی حکومت پر بھی انگلیاں اٹھنے لگیں گی جبکہ اگر مہنگائی یونہی برقرار رہی تو اس کے نتائج آئندہ عام انتخابات کے نتائج پر بھی پڑیں گے۔
ٹکٹ کی تقسیم میں کئے جانے والے فیصلے بھی مسلم لیگ ن کی ناکامی کی اہم وجہ بنے ہیں کیونکہ بیس حلقوں میں سے سترہ حلقوں پر ایسے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے گئے جو تحریک انصاف کے منحرف اراکین تھے اور 2018ء کیے انتخابات میں انہوں نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا تھا یا آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی، ایسے افراد کو ٹکٹ ملنے پر متعلقہ حلقوں کے لیگی رہنما سخت نالاں تھے، انہوں امیدواروں کی مخاصمت میں پارٹی کی پروا نہیں کی اور کسی قسم کی انتخابی مہم میں حصہ لینا گوارہ نہ سمجھا، جب حالات ایسے ہوں گے تو بالآخر پارٹی کا نقصان ہو گا۔
منحرف اراکین نے مسلم لیگ ن کی ناکامی میں اہم کردار ادا کیا ہے، پی پی 7 راولپنڈی سے راجہ صغیر احمد، پی پی 90 بھکر سے سعید اکبر نوانی، پی پی 97 فیصل آباد سے محمد اجمل چیمہ، پی پی 125 جھنگ سے فیصل حیات جبونہ، پی پی 127 جھنگ سے محمد اسلم بھروانہ، پی پی 140 شیخوپورہ سے ملک خالد محمود، پی پی 167لاہور سے نذیراحمد چوہان، پی پی 168 لاہور سے ملک اسد علی کھوکھر، پی پی 170 لاہور سے محمد امین ذوالقرنین، پی پی202 ساہیوال سے ملک نعمان احمد لنگڑیال، پی پی 217 ملتان سے محمد سلمان نعیم، پی پی 224 لودھراں سے زوار حسین وڑائچ، پی پی 228 لودھراں سے نذیراحمد بلوچ اور پی پی 237 بہاولنگر سے فدا حسین شامل ہیں۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عمران خان کے بیانئے کی مقبولیت کی بجائے مسلم لیگ ن کی جانب سے کی جانے والی غلطیوں کا ناکامی میں اہم کردار ہے، ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب 25 مئی کو پنجاب کے بیس حلقوں میں ضمنی الیکشن کا اعلان ہوا تو عمران خان نے فوری طور پر اس کی تیاری شروع کر دی، عمران خان کے ایکٹو ہونے کی وجہ سے کارکنان بھی سرگرم تھے اس کے برعکس مسلم لیگ ن کی طرف سے انتخابی مہم تاخیر سے شروع کی گئی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ مسلم لیگ ن کے پاس مریم نواز کے علاوہ انتخابی مہم چلانے کیلئے کوئی قدآور سیاستدان موجود نہ تھا کیونکہ اعلیٰ قیادت وفاقی حکومت کا حصہ ہے، یہی وجہ ہے کہ الیکشن سے چار روز قبل لیگی وزراء نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ پیش کیا تاکہ انتخابی مہم کو چلایا جا سکے لیکن تب تک کافی دیر ہو چکی تھی اور فضا تحریک انصاف کے حق میں ہموار ہو چکی تھی۔ اس مؤقف کی تصدیق مسلم لیگ ن کے ووٹرز سے ہوتی ہے جنہوں نے کہا کہ ہم سے کوئی ووٹ لینے تک نہیں آیا۔
حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے انتخابات میں برادری اور شخصی ووٹ بینک کو خاص اہمیت حاصل ہے، لوگ اس بات کو بہت اہمیت دیتے ہیں کہ کون سا لیڈر ان سے ووٹ مانگنے آیا ہے اور کون سا نہیں آیا ہے، اسی طرح یہ بھی عام سمجھا جاتا ہے کہ جب ایک پارٹی کو ووٹ دینے کا وعدہ کر لیا جاتا ہے تو ووٹ اسی کا سمجھا جاتا ہے اس حوالے سے مسلم لیگ ن کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ جب لوگ تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دینے کا وعدہ کر چکے تھے تب لیگی امیدوار وہاں ووٹ مانگنے گئے۔ اس کے باوجود مسلم لیگ ن کے ہارنے والے امیدواروں نے اچھا خاصا ووٹ حاصل کیا ہے کئی تو چند سو کے مارجن سے ہارے ہیں اگر بروقت منصوبہ کر لی جاتی تو نتائج اس سے بہتر بھی آ سکتے تھے۔ ضمنی انتخابات میں مجموعی ٹرن آؤن 49.69 فیصد رہا، پی ٹی آئی کو متعلقہ حلقوں کا 46.08 فیصد، مسلم لیگ ن کو 39.05 فیصد، دونوں آزاد امیدواروں کو سات سات فیصد جبکہ تحریک لبیک پاکستان کو پانچ فیصد ووٹ پڑا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے ووٹر کو باہر نکالنے میں ناکام رہی ہے۔