خوبصورت و تنہا لڑکی خیمے میں کیوں خوفزدہ تھی؟
خواتین یونیورسٹی کی طالبات اور اساتذہ ایک تاریخی مقام کے مطالعاتی دورے پر گئے۔ طالبات بڑی دلچسپی سے آثار قدیمہ کا جائزہ لے رہی تھیں۔ ان آثار کے ذریعے سے وہ اس دور کے کلچر اور ثقافت کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ یہ آثار کافی رقبے پر پھیلے ہوئے تھے۔ ایک طالبہ آثار کا جائزہ لیتی ہوئی دور تک نکل گئی۔ کچھ دیر کے بعد جب وہ واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ بس دوسری طالبات اور اساتذہ کو لے کر جا چکی تھی۔ کسی نے اس کی طرف توجہ ہی نہ دی کہ کوئی لڑکی پیچھے رہ سکتی ہے۔
وہ وہیں بیٹھ کر انتظار کرتی رہی ۔ اس نے سوچا جیسے ہی انہیں پتا چلے گا کہ میں پیچھے رہ گئی ہوں تو وہ لوگ فوراً واپس آ جائیں گے، لیکن بس کو واپس آنا تھا نہ آئی۔ اب آہستہ آہستہ سورج غروب ہونے لگا۔ اس لڑکی نے سوچا کہ یہاں بیٹھ کر مزید وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ آس پاس دیکھا جائے، شاید کوئی بستی نظر آ جائے جہاں سے مدد مل سکے۔
اس لڑکی نے اندازے کے مطابق ایک طرف چلنا شروع کر دیا۔ دور دور تک آبادی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ لڑکی پہلے سے زیادہ خوفزدہ ہو گئی کہ وہ اس ویرانے میں کیسے رات گزارے گی؟ بہت دور اسے ایک جھونپڑی جیسی کوئی چیز نظر آئی۔ وہ بغیر سوچے سمجھے اسی طرف چل پڑی۔ جھونپڑی کے پاس پہنچ کر اس نے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے ایک نوجوان باہر آیا جس کی عمر بیس سال کے قریب ہو گی۔ اسے دیکھ کر وہ دہشت زدہ ہو گیا اور ہکلاتے ہوئے پوچھا: تم کون ہو؟
لڑکی نے اسے بتایا کہ میں فلاں یونیورسٹی کی طالبہ ہوں، ہم یہاں مطالعاتی دورے پر آئے تھے۔ ہماری بس غلطی سے مجھے پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ لڑکی بیان کرتی ہے: لڑکے نے مجھے بتایا کہ آپ ایک بے آباد علاقے میں ہیں۔ قریبی بستی اس تاریخی مقام کے جنوب میں تھی، لیکن آپ شمال میں چلتی ہوئی بہت دور نکل آئی ہیں۔ اب آپ یہاں آرام کریں۔ میں صبح کے وقت آپ کو قریبی بستی میں چھوڑ آؤں گا۔ وہاں سے شہر جانے کے لیے کوئی سواری مل جائے گی۔
نوجوان نے مجھے مؤدبانہ کہا: آپ چارپائی پر سو جائیں، میں یہاں نیچے سو جاتا ہوں۔ اس نے چارپائی کے سامنے ایک چادر لٹکا دی تاکہ چارپائی والا حصہ جھونپڑی سے علیحدہ محسوس ہو۔ میں چارپائی پر لیٹ گئی۔ میں انتہائی خوفزدہ تھی۔ میرا سارا جسم خوف سے لرز رہا تھا۔ نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ میں نے چارپائی پرپڑی ہوئی چادر سے خود کو اچھی طرح ڈھانپ لیا اور لڑکے کی حرکات کا بغور جائزہ لینے لگی۔
وہ کمرے کے کونے میں کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا۔ پھر اس نے کتاب بند کی اور چراغ کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔ وہ دیر تک آگ کو بغور دیکھتا رہا۔ پھر اس نے اپنے ہاتھ کی انگلی کچھ دیر کے لیے آگ پر رکھی، وہ جلنے لگی تو دوسری سامنے کر لی۔ پھر یکے بعد دیگرے اتنی دیر کے لیے اپنی پانچوں انگلیاں آگ پر رکھیں۔
ادھر میری یہ کیفیت تھی کہ خوف کے مارے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ شاید یہ کوئی جن ہے جو اپنی کسی مذہی رسم کی ادائیگی میں مشغول ہے۔ پتہ نہیں اپنی اس مذہبی رسم سے فارغ ہو کر میرے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ میرے لیے سونا ممکن ہی نہیں تھا۔ وہ نوجوان بھی رات بھر نہیں سویا۔ اسی طرح صبح ہو گئی۔
اس نے صبح کے وقت مجھے ساتھ لیا اور قریبی بستی کی طرف چل دیا، مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس سے کچھ پوچھتی۔ اس نے بھی میرے ساتھ مخاطب ہونے کی کوشش نہیں کی۔ بستی پہنچ کر میں ایک گاڑی میں بیٹھ کر اپنے گھر پہنچ گئی۔ میں نے یہ واقعہ من و عن اپنے والدین کو بتا دیا، لیکن میرے باپ کو اس قصے کی صداقت پر یقین نہ آیا۔
میرے والد ایک مسافر کے روپ میں اس علاقے میں گئے اور اس لڑکے تک پہنچ گئے۔ انہوں نے اس لڑکے سے درخواست کی :میں اس علاقے سے ناواقف ہوں، ذرا مجھے شہر کا راستہ سمجھا دو۔ لڑکا خوشدلی سے تیار ہو گیا۔ اس نے اپنے ہاتھ پر پٹی لپیٹ رکھی تھی۔ میرے والد نے پوچھا: تمہارے ہاتھ پر کیا ہوا؟ لڑکے نے بتایا کہ دو رات پہلے میرے پاس ایک انتہائی حسین و جمیل لڑکی رات کے وقت ٹھہری تھی۔ شیطان نے میرے دل میں بڑے وسوسے ڈالے کہ کوئی دیکھنے والا نہیں، دور تک آبادی کے کوئی آثار نہیں۔ اس سے اچھا موقع میسر نہیں آ سکتا۔ مجھے یہ خدشہ ہوا کہیں میں کوئی حماقت نہ کر بیٹھوں ۔ میں نے ایک کے بعد دوسری انگلی جلائی تاکہ شیطانی شہوت کا سر کچل سکوں اور خود کو احساس دلا سکوں کہ دنیا کی معمولی سی آگ برداشت کرنا کس قدر اذیت ناک ہے، تو جہنم کی آگ کو میں کیسے برداشت کر پاؤں گا، جس کے مقابلے میں یہ آگ نہ ہونے کے برابر ہے۔
میرے والد کو وہ نوجوان بہت اچھا لگا۔ انہوں نے اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور اس لڑکے سے میری شادی طے کر دی۔ لڑکے کو یہ نہیں پتا تھا کہ میں وہی لڑکی ہوں جو اس کی جھونپڑی میں رات گزار چکی تھی۔ اندازہ کریں، اگر وہ اس دن کوئی حماقت کر گزرتا تو اسے کیسی سنگین سزا کا سامنا کرنا پڑتا؟ لیکن محاسبہ نفس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے وہی حسین و جمیل لڑکی اس کی زوجیت میں دے دی۔
یہاں تقویٰ کا مظاہرہ صرف لڑکے کی طرف سے نہیں کیا گیا بلکہ اس عفیفہ لڑکی کی پرہیزگاری اور پاکدامنی کو بھی تحسین کی نظر سے دیکھا جائے گا کہ اس نے بھی اپنی عفت و عصمت کی پوری طرح حفاظت کرنے کی کوشش کی۔
یوں ایک نوجوان لڑکی اور لڑکے کی پرہیزگاری اور تقویٰ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں اس سنہرے انجام سے نوازا کہ ان دونوں کو عمر بھر کے لیے شادی کے پاکیزہ دامن میں باندھ دیا۔