نیک دل خاتون کی ٹانگ کٹنے سے بچ گئی
ایک خاتون اس قدر نیک اور صالح تھی کہ اس کی زبان ہر وقت ذکر الٰہی سے تر رہتی۔ جب جہنم کا ذکر آتا تو وہ تڑپ اٹھتی اور آنسو بہانے لگتی، وہ کہتی: ’’اے اللہ! مجھے اہلِ جہنم میں سے نہ کرنا۔‘‘ جب جنت کا ذکر آتا تو اُسے دل و دماغ میں ٹھنڈک اور آسودگی محسوس ہوتی۔ وہ اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتی : ’’اے اللہ! مجھے اہل جنت میں سے کر دے۔‘‘ اُس کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ رویہ انتہائی مثالی تھا۔ وہ کسی کی غیبت کرتی نہ کسی کو برے الفاظ سے یاد کرتی۔ اُس کی زندگی اس حدیث کا مجسم نمونہ تھی کہ بھلائی کی بات کرو ورنہ خاموش رہو۔
ایک دن اُسے اپنی ایک ران میں درد محسوس ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ درد بڑھنے لگا حتیٰ کہ وہ ناقابل برداشت ہو گیا۔ مقامی ڈاکٹروں نے مقدور بھر کوشش کی لیکن وہ اس مرض کی تہہ تک نہ پہنچ سکے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ اس خاتون کو علاج کے لیے کسی یورپی ہسپتال میں لے جایا جائے، جہاں ہمارے ملک کی نسبت بہتر سہولیات میسر ہیں۔
اس خاتون کے گھر والے اسے لندن کے ایک معروف ہسپتال میں لے آئے۔
ڈاکٹروں نے بہت سے ٹیسٹوں کے بعد بتایا کہ جس جگہ درد محسوس ہوتی ہے،، وہاں ران میں خون سے تعفن اُٹھ رہا ہے۔ یہاں پر کینسر ہے جس کی وجہ سے اس خاتون کو اذیت کا سامنا ہے۔ اس طرح کا کینسر بڑی تیزی سے پھیلتا ہے۔ اس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اس کی ٹانگ کو کاٹنا پڑے گا۔ یہ کام فوری کرنا پڑے گا۔ اگر ذرا سی بھی تاخیر ہوئی تو یہ کینسر سارے جسم میں پھیل جائے گا ۔ گھر والوں کے لیے ڈاکٹروں کی بات مانے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ اپنے ملک کے علاج سے تو وہ پہلے ہی مایوس ہو چکے تھے۔ انہوں نے فوراً ہامی بھر لی۔
خاتون کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا۔ آپریشن سے پہلے اُسے بے ہوش کر دیا گیا۔ وہ خاتون ٹانگ کے محروم ہونے کے خیال سے آرزدہ اور دکھی تو تھی لیکن اللہ کی قضا پر راضی تھی۔ ذکر و اذکار کے علاوہ اُس کی زبان سے کچھ نہیں نکل رہا تھا۔ اُس کی ساری امیدیں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے وابستہ تھیں۔
اُس خاتون کی ٹانگ کاٹنے کے لیے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ۔ جیسے ہی مشین اس کی ٹانگ پر چلانے کی کوشش کی گئی، اس کا بلیڈ ٹوٹ گیا۔ ڈاکٹروں کو بڑی حیرت ہوئی۔ اس ہسپتال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ عین موقع پر مشین نے جواب دے دیا ہو۔ انہوں نے اس مشین میں جلدی سے نیا بلیڈ ڈالا، مگر اس کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ جیسے ہی مشین چلائی گئی، یہ بلیڈ بھی ٹوٹ گیا۔
ڈاکٹروں کو خدشہ تھا کہ بے ہوش کرنے والی دوائی (Anesthsia)کااثر ختم نہ ہو جائے۔ انہوں نے جلدی سے ایک اور بلیڈ ڈالا، اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ سینئر ڈاکٹر کہنے لگا: ان پے در پے واقعات کا اس مادی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ قدرت ہمیں کوئی پیغام دینا چاہ رہی ہے۔ ہمیں اس خاتون کے دوبارہ ٹیسٹ لینے چاہئیں اور ٹانگ کاٹنے کی بجائے کسی اور طریقے سے اس کا علاج ڈھونڈنا چاہیے۔
واقعی بلیڈ کا ٹوٹنا قدرت کی طرف سے ایک پیغام تھا۔ ڈاکٹروں نے دوبارہ ایکسرے لیے، انہوں نے پوری دقت نظر سے دیکھا تو انہیں معلوم ہوا کہ ران کے بیچوں بیچ روئی کا ایک ٹکڑا تھا جو انتہائی مکروہ حالت میں تھا۔ اُسی سے تعفن اُٹھ رہا تھا۔ ایک نسبتاً چھوٹا آپریشن کر کے روئی کے اس ٹکڑے کو نکال دیا گیا۔
ڈاکٹروں نے اس خاتون کے خاوند سے پوچھا: کیا اس خاتون کا اس سے پہلے بھی کبھی کوئی آپریشن ہوا ہے؟ خاوند نے بتایا: کچھ عرصہ پہلے ہمارا ایک شدید نوعیت کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں اہلیہ کی ٹانگ کئی جگہ سے ٹوٹ گئی تھی۔ ایک سے زائد آپریشنز کے بعد اس کی ٹانگ ٹھیک ہوئی تھی۔
ڈاکٹروں نے بتایا کہ انہیں آپریشنز کے دوران ڈاکٹروں کی بے احتیاطی کی وجہ سے روئی کا ایک ٹکڑا ان کی ران کے اندر رہ گیا تھا۔ یہ ساری اذیت اور تکلیف اُسی وجہ سے تھی۔ آہستہ آہستہ زخم بھرنے لگے اور خاتون بالکل ٹھیک ہو گئی۔ یوں اللہ تعالیٰ کے خصوصی کرم اور عنایت کی وجہ سے اس نیک طینت خاتون کی ٹانگ کٹنے سے بچ گئی۔ خاتون کو جب پتا چلا تو اس نے اللہ تعالیٰ کے اس خصوصی کرم اور عنایت پر اس کا شکر ادا کیا اور پہلے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت میں مشغول رہنے لگی۔