بچوں سے پیار کے اظہار میں سماجی رویے رکاوٹ

ہم سب کو کبھی کسی نا کسی موقع پر پاکستانی معاشروں میں اس تلخ تجربے سے گزرنا پڑتا ہے جس کا ذکر میں شروع کرنے لگا ہوں۔ پاکستانی معاشروں میں شاید بچوں کے ساتھ پیار کے اظہار کو ایک قسم کا عار سمجھا جاتا ہے اور بہت سے خاندانوں میں اس کو روایات کا منفی قرار دیا جاتا ہے۔ اب سوالات یہ ہیں کہ والدین بچوں کے ساتھ پیار کا اظہار کھل کر کیوں نہیں کر سکتے، سائیکالوجسٹس پیار کے اظہار سے ڈر لگنے کی وجوہات کیا بتاتے ہیں، کہ کیوں اکثر والدین اظہار سے ڈرتے ہیں؟
اس کے ممکنہ اثرات بچوں پر کیا مرتب ہو سکتے ہیں؟

والدین کی پرورش

اکثر اوقات یہ اس پر منحصر ہوتا ہے کہ کس قسم کے معاشرے اور روایات کے اندر والدین کی پرورش ہو چکی ہے۔ یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ ان کے والدین نے ان کی پرورش کیسے کی۔ اور یہ والدین کس دور میں پیدا ہوئے تھے۔ ایک بچہ جس کی اعلیٰ پرورش کی جاتی ہے اس کے پاس پیار کا اظہار کرنے کا طریقہ اس کے مقابلے میں بہت بہتر ہو گا جو فطرت پر بغیر رہنمائی کے چھوڑ دیا گیا ہو۔ انہوں نے بڑے ہوتے ہوئے پیار کا اظہار نہیں سیکھا ہوتا۔ ان کے والدین اظہار نہیں کرتے تھے اس لیے انہوں نے یہ عادات اختیار نہیں کیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں۔

ڈپرشن، ذہنی افق کے شکار والدین

بعض دفعہ ایک ذاتی المیے سے نمٹنے کے بعد والدین اندر سے کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔ افسردہ والدین کی جذباتی حدود انتہائی محدود ہوتے ہیں۔ وہ محبت، نفرت، اداسی، یا غصہ محسوس نہیں کر سکتے۔ جب انسان حساسیت کے عروج پر پہنچ جاتے ہیں اس مقام پر وہ ایک دفعہ پھر ایک بےحسی کے طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔

کنٹرولنگ والدین

بعض والدین کو اپنے بچوں پر مکمل کنٹرول کرنے کی انا ہوتی ہے۔ یہی والدین معاشرے اور رشتہ داروں میں ایک بااثر والدین ثابت ہونے کیلئے محو سفر رہتے ہیں اور بااثر ثابت ہونے کے دوڑ میں وہ پیار کے اظہار سے کتراتے ہیں تاکہ کہیں وہ خلا نہ بھر جائے جس کے اندر اتنا خوف سمویا ہوتا ہے۔
کنٹرولنگ والدین اپنے بچوں کے لیے تمام انتخاب خود کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ وہ بچے کے بہترین مفاد میں کام کر رہے ہیں لیکن یہ سب انا پر مبنی ایک تلخ حقیقت ہے۔

معاشرتی و لسانی روایات

بعض اقوام میں معاشرتی و لسانی روایات کے مطابق بچوں کے ساتھ کھل کر پیار کرنے والے باپ کو نامردی اور زن مریدی جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے اور میں خود ایک پشتون معاشرے کا فرد ہوتے ہوئے پوری زندگی اس طرح تجربات دیکھ چکا ہوں۔ ایک چھوٹا بھائی یا بہن اپنے والد یا بڑے بھائی کے سامنے اپنے بچے کو گود میں نہیں لے سکتے، صرف اس لئے کہ کہیں سیانہ بننے کا طعنہ نہ پڑ جائے۔ اپنے بچوں کیلئے وہ الفاظ استعمال نہیں کر سکتے جو وہ دل میں رکھتے ہوں، ان کو سیر یا ریسٹورنٹ پر نہیں لے کر جا سکتے، صرف اس لئے تاکہ وہ بیوی کی مٹھی میں ہونے کا مورد الزام نہ ٹھہرے۔ کچھ اس طرح والدین اور خاص طور باپ بچوں کے درمیان یہ عادات خلا بڑھ جانے کا سبب بنتے ہیں۔

کیرئیر پریشر

والدین کیلئے بچوں کا روشن مستقبل ہمیشہ سے اولین ترجیح ہوتی ہے جس کیلئے وہ ہر قسم حربے آزماتے رہتے ہیں مثلاً بات بات پر ڈانٹنا، دوسروں(بہن بھائی،رشتہ دار اور دوست کے بچوں) کے مثالیں دے کر موازنہ کرنا اور کم گریڈز لینے پر ناراض ہونا وغیرہ۔
ایک ریسرچ کے مطابق ایگزیم پریشر اور بہترین کارکردگی دکھانے کے چکر میں بچے عام طور پر ذہنی دباؤ کے لپیٹ میں آجاتے ہیں۔

غیر تعلیم یافتہ والدین

مڈل کلاس کے والدین مشکل سے کچھ بنیادی عصری علوم تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن گھریلوں ذمہ داریوں کے باعث وہ یہ سلسلہ چھوڑ جاتے ہیں جس کی نتیجے میں ان کا علاقائی روایات سے باہر تجربہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔اس لئے وہ ان روایات کی پاسداری میں یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر ایک انسان کو زندگی دینا اہم ہے تو اسی طرح اس سے پیار کرنا بھی لازمی جز ہے۔

باہر ممالک میں قیام

پاکستان کا بیشتر طبقہ رزق حلال کمانے کی خاطر باہر عرب ممالک کا رخ کرتے ہیں جو کہ کم ازکم ہر تین سے پانچ سال بعد کچھ مہینوں کے لئے اپنے وطن لوٹ آتے ہیں۔ اس طرح ان مجبوریوں کی تحت باپ کے سائے سے بچے محروم ہو کر زندگی گزارتے ہیں اور بچوں سے باپ کا تعلق ایک اجنبی حیثیت کا بن کر رہ جاتا ہے۔

بچوں میں احساس کمتری

اس طرح بچوں میں خود اعتمادی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے جو کہ بعد میں ان کے مستقبل پر اثر انداز ہو جاتی ہے۔ مستقبل میں وہ بیشتر ایک ناکام انسان کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ زندگی کے فیصلے خود نہیں کر سکتے۔

بچوں میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان

کیرئیر پریشر خودکشی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کیرئیر پریشر ذہنی افق کی بنیاد بنتا ہے اور وہی بچے ذہنی دباؤ کو ایک پراثر طریقے سے نمٹانے میں قاصر ہوتے ہیں۔ اس لئے زندگی کیےاس موڑ پر پہنچ کر یہی سوچتے ہیں کہ خودکشی کے علاوہ اس سفر کا کوئی حل موجود نہیں۔

پڑھائی سے بغاوت یا گھر سے فرار ہونا

اگر کوئی بچہ اتنا ہینڈل کرلے کہ خودکشی سے تو بچ جائے لیکن اگر پھر بھی ان کو ایک حل نظر نہیں آ رہا ہوتا تو پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں یا انتہائی قدم اٹھا کر بھاگ جاتے ہیں جو والدین کیلئے عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ بچوں کو بھی اس نہج پہ سراسر مورد الزام ٹھرانا غلط ہو گا کیونکہ اس انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سے زیادہ سوچ چکا ہوتا ہے۔

غلط دوستوں کی صحبت

ہر انسان کو ایک حد تک جذباتی وابستگی کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے وہ محبت اور بے تکلف احساس اگر ان کو قریب لوگوں میں نہیں ملتا تو وہ اس کی تلاش میں باہر نکلتا ہے جو نائنٹی پرسنٹ غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔

نشے کی لت

اکثر اوقات ان ذہنی تناؤ اور غلط دوستوں کی صحبت بہت سے جوانوں
کو نشے کی لت میں مبتلا کر دیتے ہیں جو کہ زندگی میں لاش بننے کا دوسرا نام ہے۔

یہ بے حسی نسل در نسل منتقل ہو کر وہی مقام حاصل کر چکی ہے جو انسانی فطرت اور دین اسلام کے قطعاً خلاف ہے لیکن پھر بھی کئی والدین نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو ایک مؤثر عمل سمجھتے ہیں اور بہت سوں کو اس کا پتہ تک نہیں۔ اب ہمیں اس دقیانوسی سوچ کا زنجیر توڑ کر برعکس جانا چاہئے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button