موسیقی کی دلدادہ لڑکی کی عقل ٹھکانے آ گئی

وہ اپنے کمرے میں بیٹھی اپنے پسندیدہ گیت سن رہی تھی۔ اس کا پسندیدہ گلوکار گانا گا رہا تھا وہ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہیڈ فون لگائے اسے سننے میں محو تھی۔ یہ اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ بہت مزے سے موسیقی سن رہی تھی، اس کی ماں جس کی کمر عمر رسیدگی کے باعث جھک گئی تھی، اسے مسلسل آوازیں دے رہی تھی، لیکن وہ سنی ان سنی کر رہی تھی۔

ماں کہہ رہی تھی: میری پیاری بچی! شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو اور اپنے دن کا اختتام دو رکعت نماز کے ساتھ کرو ۔ اس کوڑے کرکٹ سے خود کو بچا کر رکھو۔ بیٹی نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں جواب دیا: اچھا اچھا ماں! سن لیا۔

ماں اپنی جائے نماز کی طرف متوجہ ہوئی اور اپنی روزانہ کی نفلی نماز ادا کرنے لگی۔ اس نے ماں کی طرف لاپرواہی سے دیکھا۔ گانے ختم ہو چکے تھے۔ اس نے بستر پر بے چینی سے پہلو بدلا۔ اس کی خواہش ہوتی تھی کہ رات کو سونے سے پہلے اس کے کانوں میں آخری آواز گانے ہی کی پڑے اور وہ موسیقی سنتے سنتے نیند کی آغوش میں پہنچ جائے۔ نیند کی تیاری کرنے کے لیے وہ بیٹھی، اپنے بالوںکا ربن کھولا، ہیڈ فون کو سر سے الگ کیا۔ اچانک اس کی نگاہ کھڑکی پر پڑی… اوہ! یہ تو کھلی ہے قبل اس کے کہ وہ کھڑکی بند کرنے کے لیے جاتی، اچانک کوئی چیز تیر کی طرح تیزی سے آئی اور عجیب و غریب سرعت سے سیدھی اس کے کان کے سوراخ میں داخل ہو گئی۔ وہ کان کے پردے تک پہنچ گئی۔ لڑکی درد کی شدت سے چلائی۔ وہ دیوانوں کی طر ح چکر کاٹ رہی تھی ۔ اس کے سر میں سیٹیاں بج رہی تھیں اور کانوں میں سرسراہٹ تھی۔

ماں گھبرائی ہوئی آئی : بیٹی ! تمہیں کیا ہوا؟ بجلی کی سی تیزی سے اسے ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچایا گیا۔ طبیب نے اسے چیک کیا، نرسیں بھی آ گئیں۔ درد کی اس مصیبت کے دوران ڈاکٹر نے ہنسنا شروع کر دیا، پھر نرسیں بھی ہنسنے لگیں۔

لڑکی نے ان سب کو لعن طعن شروع کر دی: تم لوگ ہنس رہے ہو، اور تکلیف سے میری جان پر بنی ہوئی ہے؟ ڈاکٹر نے بتایا کہ ایک اڑنے والا بھونرا کان میں داخل ہو گیا ہے۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں، اسے بسہولت نکال لیا جائے گا، لیکن میں اسے نہیں نکال سکتا۔ اس کے لیے سپیشلسٹ ڈاکٹر کی ضرورت ہو گی اور ان سے ملاقات صبح سات بجے سے پہلے ممکن نہیں۔ وہ کیسے صبح تک انتظار کرتی، کیڑا اس کے کان میں بھنبھنا رہا تھا اور باہر نکلنے کی کوشش میں تھا۔ درد تھا کہ ہر لمحہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔

ڈاکٹر نے کہا: میں تمہاری ایک مدد کر سکتا ہوں ۔ میں اس کیڑے کو دوائی کے ذریعے صبح تک بے ہوش کر دیتا ہوں تاکہ وہ کان میں حرکت نہ کرے۔ اس نے کان میں سن کرنے والی دوائی ڈال دی اور اس ڈاکٹر کا کام یہاں ختم ہو گیا۔

لڑکی پاگلوں کی طرح سر پٹختی ہوئی گھر واپس پہنچی، ایسا لگتا تھا کہ درد کی شدت سے اس کا سر پھٹ جائے گا۔ رات اس نے اس طرح گزاری جیسے یہ ایک صدی ہو۔ نماز فجر ہوتے ہی وہ اپنی والدہ کے ہمراہ ہسپتال پہنچ گئی ۔ڈاکٹر نے اسے چیک کیا مگر معاملہ اس کے اندازے سے زیادہ مشکل تھا۔ کیڑے کو کان سے نکالنا آسان کام نہیں تھا ۔ اس نے کیڑے کو نکالنے کی کوشش کی مگر صرف اس کی دم ہی نکل سکی۔ پھر کوشش کی تو اس کا پیٹ، پھر سینہ، پھر سر نکلا… کیا نکل گیا؟ لڑکی نے بے چینی سے پوچھا: وہ اب بھی درد محسوس کر رہی تھی۔ ڈاکٹر نے ایک بار پھر غور سے چیک کیا تو پتہ چلا کہ کیڑے کی دونوں سونڈیں کان کے پردے میں گھس چکی ہیں۔

ان کا نکالنا مشکل تھا کیونکہ یہ سختی سے کان کے پردے کے ساتھ چمٹی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر نے روئی کے ٹکڑے پر دوائی لگا کر کان میں رکھ دی اور مریضہ کو پانچ دن کے بعد پھر آنے کو کہا۔ اس امید پر کہ زندگی منقطع ہونے کے باعث شاید یہ سونڈیں گل کر ختم ہو جائیں اور صورت حال معمول پر آ جائے۔

لڑکی کی سماعت بھی آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو چکی تھی۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ وہ اپنے مخاطب کو ہونٹ ہلاتے دیکھتی لیکن اس نے کیا کہا، اس کے کچھ پلے نہ پڑتا۔ یوں لگتا کہ لڑکی عنقریب پاگل ہو جائے گی۔ وہ وقت مقررہ پر ڈاکٹر کے پاس آئی لیکن افسوس کہ ڈاکٹر کوشش کے باوجود کچھ نہ کر سکا۔ اس نے ایک بار پھر روئی کا ٹکڑا دوائی میں بھگو کر کان میں رکھ دیا اور پانچ دن بعد پھر آنے کا کہا۔

لڑکی بہت روئی، اسے بے چارگی اور بے بسی کا شدید احساس ہو رہا تھا۔ اس کے گرد سب لوگ بات چیت کرتے اور ہنستے کھیلتے لیکن اسے کچھ سنائی نہ دیتا۔ اگلے پانچ روز گزار کر پھر ڈاکٹر کے پاس آئی مگر اس بار بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اچانک ڈاکٹر نے اسے یہ دل دہلا دینے والی خبر سنائی کہ تمہارے کان کا آپریشن کر کے یہ سونڈیں نکالی جائیں گی۔ خوف اور رعب کے باعث وہ مرنے کے قریب ہو گئی۔ اس نے ڈاکٹر سے درخواست کی کہ اسے پانچ دن مزید دے دیے جائیں، شاید خلاصی کی کوئی صورت نکل آئے۔ ڈاکٹر نے کہا: ٹھیک ہے، پانچ روز بعد آجاؤ۔

پانچ دن گزر گئے تو لڑکی آئی اور ڈاکٹر نے ایک آخری کوشش کی کہ شاید کام بن جائے ۔ اللہ نے فضل و کرم کیا اور بغیر کسی آپریشن کے کیڑے کی دونوں سونڈیں باہر آ گئیں۔ آہستہ آہستہ سماعت کا ضعف بھی دور ہونے لگا اور کچھ عرصے میں طبیعت بحال ہو گئی۔ اس ساری کارروائی کے دوران لڑکی سمجھ گئی کہ اسے جو مصیبت پہنچی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک جھٹکا تھا جو اسے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے دیا گیا ۔ اس کے بعد لڑکی نے سچے دل سے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت گزار بندی بن گئی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button