جھوٹی خبریں کیوں تیزی سے پھیلتی ہیں؟
31اکتوبر 1984ء کو مسز اندراگاندھی کا قتل ہوا۔ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ قتل کا یہ واقعہ وزیر اعظم کے حفاظتی دستہ کے دو سکھ جوانوں نے کیا ہے تو سکھ فرقہ کے خلاف تشدد پھوٹ پڑا۔ اس حوالے مولانا وحید الدین خان کہتے ہیں کہ یکم نومبر اور 2نومبر کی درمیابی شب راقم الحروف دہلی میں اپنے مکان میں لیٹا ہوا تھا کہ گیارہ بجے رات کو ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔
ایک صاحب بتا رہے تھے کہ دہلی کے پانی میں زہر ملا دیا گیا ہے، اس لیے نل کا پانی استعمال نہ کیا جائے۔ چند منٹ بعد دوبارہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ ایک اور صاحب نے یہی خبر سنائی۔ کچھ دیر بعد دروازے کی گھنٹی نے متوجہ کیا۔ باہر نکلا تو سڑک پر کئی نوجوان اسی خبر کو بتانے کے لیے کھڑے تھے۔ کچھ دیر کے بعد پھر ایک وفد نے دروازہ کی گھنٹی بجا کر یہی خبر سنائی۔ جلد ہی نظام الدین بستی کی مسجدوں میں لگے ہوئے لاؤڈاسپیکر گونجے اور مسلسل یہ اعلان کیا جانے لگا… خبرملی ہے کہ پانی میں زہر ملادیا گیا ہے، آپ لوگ نلوں کا پانی استعمال نہ کریں۔
تقریباً دو گھنٹے تک ان خبروں اور اعلانات کا ہنگامہ لوگوں کی نیند کو درہم برہم کرتا رہا۔ خبر ملتے ہی ہم نے فوری طور پر یہ کیا کہ ریڈیو کھولا اور بارہ بجے اور ایک بجے رات کو دہلی ریڈیو سے نشر ہونے والا پروگرام سنا۔ دونوں بار ریڈیو نے واضح لفظوں میں یہ بتایا کہ یہ افواہ بالکل غلط ہے کہ پانی میں زہر ملادیا گیا ہے۔ سرکاری طور پر باقاعدہ پانی کا ٹیسٹ لیا گیا ہے اور مکمل طور پر درست پایا گیا ہے۔ اس کے بعد ہم نے دہلی پولیس کو نمبر 100پر فون کیا۔ انہوں نے بھی کہا کہ پانی میں زہر ملانے کی افواہ سراسر غلط ہے۔ پانی بالکل ٹھیک حالت میں ہے۔ جانچ کے بعد اس میں کوئی خرابی نہیں پائی گئی۔
2نومبر کی صبح کو اخبارات دیکھے تو پہلے ہی صفحہ پر دہلی میونسپل کمشنر مسٹر پی پی سری داستو کا یہ بیان موجود تھا کہ دہلی میں نل کا پانی بالکل صحیح پایا گیا ہے۔ اس کا بار بار ٹیسٹ لیا گیا ہے اور کسی طرح کی زہریلی آمیزش اس میں نہیں پائی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ 31اکتوبر ہی سے پانی کے تمام فلٹریشن پلانٹس پر سخت حفاظتی پہرہ بٹھا دیا گیا ہے۔
سماجی زندگی میں اکثر بگاڑ صرف اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ لوگ ایک خبر سنتے ہیں اور بلاتحقیق اس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں۔ اگر اسلام کے حکم کے مطابق خبروں کی تحقیق کی جانے لگے تو اکثر جھگڑے اور فساد پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائیں۔