نامہ و پیام سے براہ راست ہمکلامی تک کا سفر

اس وقت زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح پیغام رسانی کے شعبے میں بھی اتنی ترقی ہو گئی ہے کہ دنیا کے ایک کونے میں بیٹھا انسان، کرہ ارض کے دوسرے کونے میں بیٹھے انسان سے براہ راست بات کر سکتا اور اس کی حرکات و سکنات دیکھ سکتا ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا، مجھے معلوم نہیں لیکن ہماری نسل نے اس باب میں ترقی کا سفر اپنی آنکھوں سے جس طرح دیکھا یے، اسے بیان کرتا ہوں۔

پیغام رسانی انسانوں کی اہم ضروریات میں سے ایک رہی ہے اور قدیم زمانے میں ایلچیوں کے ذریعے دوسروں تک اپنا پیغام پہنچانے کے بعد خط و کتابت اور تحریر اس کا اہم ذریعہ رہی ہے۔ پھر پیغام رسانی کو منظم کرنے کے لئے سررشتہ ڈاک وجود پزیر ہوا اور اس کی رفتار بڑھانے کے لئے پرندے تک استعمال میں لائے گئے اور ہوتے ہوتے جب ہم نے ہوش سنبھالا تو پیغام رسانی کا تیز ترین طریقہ تار دینا تھا۔

موجودہ نسل کو شاید تار کا پتہ ہی نہ ہو گا۔ تار دینے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ آپ کسی کو جو پیغام دینا چاہتے وہ تار گھر والوں کو دے دیتے۔ یہ پیغام انگریزی یا کم از کم رومن اردو میں لکھنا ضروری ہوتا تھا۔ اس کے بعد تار گھر والے ایک خاص آلے کے ذریعے ایک ایک حرف مطلوبہ شہر کے تار گھر کو املا کراتے اور اس سے پیغام پورا ہو جاتا اور یہ مطلوبہ شخص کو پہنچایا جاتا۔

اس طرح کی پیغام رسانی میں کسی موت، کوئی ہنگامی خبر یا کسی کے آنے جانے کی خبریں ہوتی تھیں مگر یہ صرف بڑے شہروں تک محدود ہوتا تھا۔ اس لئے تار آنے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ کوئی خاص بات یا واقعہ پیش آیا ہے۔ اس کے بعد عام آدمی کے پاس پیغام رسانی کا ذریعہ خط وکتابت ہوتا تھا۔

خط کے مندرجات پر پھر کبھی بات ہو گی البتہ خط دستی اور ڈاک دونوں طریقوں سے بھیجا جاتا تھا۔ پھر ڈاک سے بھیجنے کے تین طریقے ہوتے تھے۔ عام ڈاک جس کا میری یاد میں پہلا لفافہ چالیس پیسے کا ہوتا تھا۔ اس کے بعد رجسٹرڈ ڈاک کا نمبر آتا تھا۔ عام ڈاک والا خط گم بھی ہو سکتا تھا لیکن رجسٹرڈ کی پوری انکوائری کرائی جا سکتی تھی۔ اس لئے اہم کاغذات اور ضروری چٹھیاں رجسٹرڈ بھیجی جاتی تھیں۔ تیسرا طریقہ تیز ڈاک کا تھا۔ یہ بہت بعد میں آیا۔ اس کے علاوہ خط کو محفوظ طریقے سے بھیجنے کے لئے اسے بے رنگ بھی بھیجا جاتا تھا۔ بے رنگ کا مطلب ہوتا تھا کہ اس پر ٹکٹ نہیں لگایا گیا۔ یہ خط اس لحاظ سے محفوظ ہوتا تھا کہ ڈاک خانے میں اس کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا اور محکمہ ڈاک مکتوب الیہ سے دگنا ٹکٹ وصول کر کے خط اس کے حوالے کرتا تھا۔ اس لئے بے رنگ خط بھی خطرے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

اب تو ڈاک میں بھی نت نئے طریقے آ گئے ہیں لیکن میں نے بہت عرصے سے کسی کو کوئی خط لکھا اور نہ کسی نے مجھے۔ خط لکھنے پڑھنے کے لئے کسی لکھے پڑھے آدمی کی ضرورت ہوتی تھی اور یہ سہولت بھی کافی مشکل سے دستیاب ہوتی تھی کیونکہ پڑھائی کی شرح کم تھی اور لوگ "ماسٹروں” ڈاکیوں اور دیگر پڑھے لکھے لوگوں سے خط لکھوایا اور پڑھوایا کرتے تھے۔ اس کے بعد ٹیپ ریکارڈر آیا تو پیغام رسانی کے شعبے میں ایک نیا انقلاب آ گیا کیونکہ اس کے ذریعے ان پڑھ لوگ بھی اپنا پیغام ٹیپ کر کے بھیج سکتے تھے اور اس کو خود سن بھی سکتے تھے لیکن یہ کام مہنگا اور مشکل تھا کیونکہ ہر آدمی کے پاس ٹیپ ہوتی تھی اور نہ کیسٹ۔

بہر حال یہ ایک اچھا ذریعہ تھا اور لوگ اپنے پیاروں کی آواز سن کر نہال ہو جاتے تھے اور پھر کوشش کر کے اسی کیسٹ میں جواب بھر کر بھیج دیتے تھے۔ یہ طریقے بالواسطہ پیغام رسانی کے لئے کام میں لائے جاتے تھے جبکہ براہ راست پیغام رسانی اور بات کرنے کے لئے شہروں میں ٹیلی فون کا پورا نظام ہوتا تھا۔ شروع میں چھوٹے شہروں میں کسی کا بھی نمبر براہ راست نہیں ملایا جا سکتا تھا جبکہ نمبر بھی تین یا چار ہندسوں پر مشتمل ہوتے تھے۔

آپ ٹیلی فون گھر سے جا کر نمبر ملواتے تھے اور آگے بھی ٹیلی فون گھر والا فون اٹھا کر مطلوبہ نمبر ملاتا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں ایک مکالمہ تین منٹ کا ہوتا تھا۔ اس لئے اگر آپ نے بات تین منٹ میں پوری نہیں کی تو یا تو مکالمہ ختم کر دیا جاتا تھا یا آپ کو اگلے مکالمے کے بھی پیسے بھرنے پڑتے تھے۔ اس کے بعد براہ راست نمبر ملانے کا نظام رائج ہوا تو ٹیلی فون گھر والا کام ختم ہو گیا کیونکہ اب آپ کسی بھی فون سے کسی بھی شہر کے کوڈ کے ساتھ کسی بھی نمبر پر خود بات کر سکتے تھے لیکن چھوٹے شہروں میں کچھ عرصہ قبل ہی براہ راست ڈائلنگ کا نظام آیا یے۔

اس وقت فون پر بات کرنا ایک عیاشی یا پھر ہنگامی ضرورت سمجھا جاتا تھا کیونکہ 1992 میں کراچی سے اسلام آباد ایک منٹ بات کرنے کے شاید انتالیس روپے لئے جاتے تھے جبکہ اس وقت مزدور دیہاڑی کے شاید تیس روپے اجرت لیتا تھا۔ ٹیلی فون کی خدمات اس وقت صرف ایک سرکاری کمپنی پیش کرتی تھی۔ اس میدان میں اگلا انقلابی قدم یہ رونما ہوا کہ کچھ کمپنیوں نے مختلف مقامات پر ٹیلی فون لگا دیئے۔ یہاں سے فون کرنے کے لئے کارڈ خریدنا پڑتا تھا اور یہی کارڈ مشین میں ڈال کر بات کی جاتی تھی اور کارڈ ختم ہوتے ہی بات بھی ختم ہو جاتی تھی۔

اس نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہاں سے رات دن کسی بھی وقت بات ہو سکتی تھی جبکہ ٹیلی فون گھر ایک نظام الاوقات کے پابند ہوتے تھے۔ جوں جوں پیغام رسانی کے براہ راست طریقوں میں سہولت پیدا ہوتی گئی، بالواسطہ پیغام رسانی کا نظام ایک ایک قدم پیچھے ہٹنے لگا اور اس کو سب سے بڑا دھکا متحرک یا گشتی فون نے دیا۔

موجودہ ہزاری کے آغاز میں جب پاکستان میں متحرک فون کا نظام متعارف ہوا تو اس میں بات سننے کے بھی پیسے لگتے تھے اور گشتی فون دولت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بعد یہ سہولت عام ہوتی چلی گئی اور اب ہر چھوٹے بڑے کے ہاتھ میں ایک فون ہے۔ فون کے اس قدر عام ہونے کے بعد تار، ٹیلی فون اور خط وغیرہ پیغام رسانی کے تاریخی ذرائع کے طور پر تو زندہ ہیں مگر عملی زندگی میں ان کا استعمال بہت کم ہو گیا ہے۔ اس لئے پہلے آپ خط لکھ کر جواب کے منتظر رہتے تھے، اب اس کی نئی شکل یہ آ گئی ہے کہ آپ صوتی، تحریری یا باتصویر پیغام چھوڑ دیں اور مرسل الیہ اپنی سہولت سے اس کا جواب دے دے گا اور اس سے بھی اگلی بات یہ ہے کہ اگر متکلِم اور مخاطَب کے پاس وقت ہو تو وہ براہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے باتصویر گفتگو بھی کر سکتے ہیں۔

آج میرے ایک دوست نے ملائشیا سے مجھ سے ایسا ہی رابطہ کیا اور اپنے ارد گرد کے ماحول کی سیر کرائی۔ میں نے بھی اسے اپنے گھر کا نظارہ کرایا۔ انہوں نے حضرت استاذی و مولائی ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر رحمہ اللہ کی دو خوبصورت باتیں سنائیں کہ ایک مرتبہ میں ان کے گھر گیا تو حضرت نے فرمایا کہ "کل ما فی ھذا البیت حلال علیک الا ما حرم اللہ” یعنی اس گھر میں اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے علاوہ سب کچھ تمہارے لئے حلال ہے اور جب ملائشیا تشریف لائے تو اصرار کر کے میرے گھر تشریف لائے، وہاں نماز پڑھی، دعائیں دیں اور فرمایا کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں ہمارے شاگرد کس حال میں رہ رہے ہیں۔

اسی طرح پیغام رسانی کے ذرائع کی اس قدر ترقی سے وحی اور ایمان بالغیب کی بہت سی باتیں بدیہی ہو کر رہ گئی ہیں کیونکہ اب کسی کو یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کے بعد بیت المقدس کس طرح دکھایا گیا اور خندق کھودتے ہوئے چٹان سے نکلنے والی چنگاریوں میں قیصر و کسریٰ کے محلات کیونکر دکھائی دیئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خطبے کے دوران حضرت ساریہ کا لشکر کیونکر نظر آیا کیونکہ اگر انسان کی عقل مشرق اور مغرب میں بیٹھے دو انسانوں کو ملا سکتی ہے تو انسان کے خالق کی قدرت کی کیا حد ہوگی!

آخری بات یہ کہ پیغام رسانی کے ذرائع کی ترقی نے رابطے کی قیمت بہت گھٹا دی ہے۔ اب کوئی خط نہیں لکھتا بلکہ فیس بک پر پیغام لکھتا ہے جس کو ہزاروں لوگ پڑھتے ہیں۔ اب کسی سے مخصوص رابطے کی بجائے وٹس ایپ کے مجموعے میں پیغام دے دیا جاتا ہے بلکہ صورت حال اس سے بھی آگے نکل چکی ہے کیونکہ لوگ خود مشین پر بھی چار حرف خود لکھنے کی زحمت کرنے کی بجائے کہیں سے نقل اور چسپاں کرنے پر اکتفا کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں وہ نامہ و پیام کا لطف کہاں سے آئے گا؟

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button