خوش خیالی حقیقت کا بدل ہرگز نہیں ہو سکتی

ایک بڑا مجمع سڑک کنارے کھڑا 136 نمبر وین کا انتظار کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک ہائی ایس آتی دکھائی دی اور سارے اس کی طرف دوڑے۔ ’’اوہ! یہ تو 120 نمبر ہے جو دوسرے روٹ کی گاڑی ہے، ‘‘بورڈ دیکھ کر ایک شخص بولا ۔ ’’120کو 136کر لو سولہ ہندسوں کا تو ہی فرق ہے اور چلے جاؤ‘‘ دوسرے نے کہا۔

ظاہر ہے یہ صرف مذاق تھا۔ کوئی شخص ایسا نہیں کرے گا کہ کھر یا مٹی لے کر ہائی ایس پر اپنا مطلوبہ نمبر لکھے اور اس پر بیٹھ کر سمجھے کہ وہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا ہے۔ یہ ہندسہ کا فرق نہیں، حقیقت کا فرق تھا اور حقیقت کو ہندسہ کے فرق سے نہیں بدلا جا سکتا۔ یہ بات اپنی ذاتی زندگی کے معاملات میں ہر شخص جانتا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ ملت کے رہنما ملت کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اُٹھتے ہیں تو وہاں اپنا مقدمہ بھول جاتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہندسہ کو بدل کر وہ اس کام کا کریڈٹ حاصل کر لیں جو اسباب کی اس دنیا میں صرف حقیقت کے نتیجہ میں کسی کو ملتا ہے۔

ایک ایسا سماج جہاں امتیاز اور لیاقت کی بنیاد پر لوگوں کو درجات ملتے ہیں، ہم مراعات اور تحفظات کے عنوان پر کانفرنس کر رہے ہیں۔ ایک ایسا نظام جہاں علمی اور اقتصادی طاقت کے بل پر قوموں کے فیصلے ہوتے ہیں، ہم احتجاج اور مطالبات کے پوسٹر دیواروں پر چپکا رہے ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں زبان و بیان نے بالکل نیا انداز اختیار کر لیا ہے، ہم اپنے روایتی کتب خانہ کے بورڈ پر ’’دورِ جدید‘‘ کا لفظ لکھنے کے لیے آرٹسٹ کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ ایک ایسازمانہ جہاں عالمی ذہن نے سیاست کو سیکولر بنیادوں پر قائم کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے، ہم عوام کا ذہن بدلے بغیر بیلٹ باکس سے اسلامی نظام برآمد کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

ایک ایسی آبادی جہاں اختلاف اور شکایت کے گہرے مادی اسباب موجود ہیں، ہم لفظی تقریروں کے کرشمے دکھا کر حالات کو درست کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہم تعلیم، اقتصادیات، باہمی اتحاد ہر لحاظ سے تمام گروہوں میں سب سے پیچھے ہیں، ہم جلسوں اور کنونشنوں کے ذریعے ملک کی قسمت بدلنے کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ ایک ایسا جغرافیہ جہاں ہمارے پاس اپنے تحفظ کی بھی طاقت نہیں، ہم ’’حریف کو نقصان پہنچاؤ‘‘ کا طریق کار اختیار کر کے باعزت زندگی حاصل کرنے کی تجویز پیش کر رہے ہیں۔ اس قسم کی تمام باتیں اس طرح بے معنی ہیں جس طرح 120نمبر ہائی ایس پر 136نمبر لکھ کر اپنی منزل کی طرف سفر شروع کرنا۔

موجودہ دنیا میں ہر چیز ممکن بھی ہے اور ناممکن بھی۔ کسی چیز کو اگر اس کے فطری طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور اس کے لیے ضروری اسباب فراہم کیے جائیں تو اس کاحصول اسی طرح ممکن ہو جاتا ہے جیسے رات پوری ہونے کے بعد سورج کا نکلنا۔ لیکن اگر فطرت کے مقرر کردہ طریقہ سے انحراف کیا جائے اور مطلوبہ چیز کے مطابق اسباب جمع نہ کیے جائیں تو اس کے بعد ناکامی اتنی ہی یقینی ہو جاتی ہے جتنی پہلی صورت میں کامیابی۔ عالم فطری پر یہ انسان کاحق ہے کہ وہ اس کو کامیاب کرے، مگر وہ کامیاب اس کو کرتا ہے جو اسکی مقررہ شرائط کو پورا کرنے کے لیے تیار ہو۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button