معروف مصری اداکارہ نے فلم انڈسٹری کو کیوں چھوڑا؟
سوزی مظہر مصر کی فلم انڈسٹری کی بہت مشہور ایکٹریس تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک فرانسیسی دوشیزہ کے ہاتھوں ہدایت دی۔ اسے یہ ہدایت کیسے ملی؟ یہ کہانی بڑی مؤثر ہے۔ آئیے پڑھتے ہیں:
سوزی مظہر جس کا چچا معروفِ زمانہ اداکار احمد مظہر ہے، جب وہ سیدھے راستے پر آئی تو ایک بڑی مؤثر داعیہ بن گئی۔ اُس کی دعوت پر بے شمار اداکاراؤں نے شوبز کو چھوڑ کر نیکی اور تقویٰ کے راستے کو اختیار کیا۔ اب اُسے دعوت کے میدان میں کام کرتے ہوئے دو دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ایک مرتبہ ایک مجلس میں اس نے اپنی توبہ کی کہانی سناتے ہوئے بیان کیا:
میں نے پہلے فائن آرٹس کی ڈگری حاصل کی، پھر صحافت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ میں انتہائی چست اور جدید مغربی لباس پہنا کرتی تھی۔ میں اسلام کے محض نام سے واقف تھی۔ اسلامی تعلیمات کا مجھے کچھ پتہ نہیں تھا۔ عمل پیرا ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مال و دولت کی ریل پیل، مقام، مرتبے اور سٹیٹس کے باوجود میں دو چیزوں سے بہت ڈرتی تھی : بجلی اور گیس۔ میرے لاشعور میں یہ خوف چھپا بیٹھا تھا کہ میں جس طرح کی زندگی گزار رہی ہوں، کہیں اللہ تعالیٰ مجھے بھسم نہ کر ڈالے۔ جب میری شادی ہوئی تو ہنی مون منانے کے لیے یورپ کے ٹور پر گئی۔ کئی یورپی ممالک کی سیر کی۔ اس سلسلے میں ہم روم بھی گئے۔ روم جانے والوں کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ وہ ویٹی کن سٹی بھی دیکھیں۔ جب ہم ویٹی کن سٹی میں داخل ہونے لگے تو انہوں نے مجھے سیاہ چمڑے کا ایک بانطو پہننے کے لیے کہا۔ بانطو، گاؤن ٹائپ ایک لباس ہوتا ہے۔ میں نے خود سے سوال کیا: یہ اپنے تحریف شدہ دین کا احترام کرتے ہیں۔ ہم اپنے خالص اورشکوک و شبہات سے پاک دین کا کتنا احترام کرتے ہیں؟
اپنے اس سفر کے دوران ہم پیرس بھی گئے۔ پیرس جا کر میں نے اپنے خاوند سے کہا: میں شادی کی اس نعمت پر شکرانے کے نوافل ادا کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے اس کے لیے طویل باپردہ لباس پہنا، سر کو ڈھانپا اور ایک بہت بڑی مسجد میں گئی۔ وہاں پر نوافل ادا کیے مسجد کے دروازے پر آکر میں نے اپنے سر سے چادر اُتاری اور طویل لباس بھی اُتارنے لگی۔ ایک نیلی آنکھوں والی فرانسیسی دوشیزہ میرے پاس آئی۔ میں پوری عمر بھی اُس فرانسیسی لڑکی کو بھول نہیں پاؤں گی۔ اُس نے اسلامی طریقے سے حجاب اُوڑھا ہوا تھا۔ اُس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: تم حجاب کیوں اُتار رہی ہو؟ کیا تمہیں پتا نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے؟ مجھے ایسے لگا کہ اُس نے مجھے یکدم خوابِ غفلت سے بیدار کر دیا ہے۔ پھر وہ بڑی ملائمت اور نرمی سے کہنے لگی: کیا آپ میرے ساتھ مسجد میں چلیں گی؟ میں چاہتی تھی کہ اُس سے معذرت کر لوں، لیکن اُس کے لہجے میں اتنی اپنائیت اور خلوص تھا کہ میں انکار نہ کر سکی اور اُس کے ساتھ مسجد کے اندر چلی گئی۔ مسجد میں جا کر وہ مجھ سے پوچھنے لگی:
’’کیا تم گواہی دیتی ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں؟‘‘
میں نے کہا: بالکل میں اسی کلمے پر یقین رکھتی ہوں۔ وہ بولی:
آیا تم اس کا مفہوم سمجھتی ہو؟ یہ محض الفاظ نہیں ہیں جو زبان سے ادا کیے تو ان کا حق ادا ہو جائے گا، بلکہ ان الفاظ کی دل سے تصدیق بھی ہونی چاہیے ۔پھر ایمان ہو گا ورنہ محض زبان سے تو یہ کلمہ منافقین بھی ادا کرتے ہیں۔
اس نو عمر لڑکی نے مجھے زندگی کا سب سے بڑا درس دیا تھا۔ میرا دل کانپ اُٹھا۔ میں نے خود کو ان کلمات کے سامنے سرنڈر کر دیا۔ میں زندگی بھر اس کے الوداعی کلمات بھول نہیں پاؤں گی:
’’میری بہن! اس دین کی مدد کرو۔‘‘
میں مسجد سے باہر نکلی تو سوچوں میں گم تھی۔ مجھے اپنے اردگرد کا کوئی ہوش نہیں تھا۔ اُسی دن میرا خاوند مجھے ایک نائٹ کلب میں لے گیا۔ اس جگہ خواتین اور مرد مل کر نیم عریاں حالت میں ڈانس کر رہے تھے۔ وہ لوگ موسیقی کی ٹونز کے ساتھ ایک ایک کر کے اپنے مزید کپڑے اُتار رہے تھے، حتیٰ کہ اُن میں سے بعض بالکل عریاں ہو گئے۔ اب وہ بالکل حیوانی سطح پر اُتر آئے تھے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آہستہ آہستہ وہ حیوانیت سے بھی پست سطح پر اُترنے لگے۔ میں نے اس شیطانی سرگرمی کی طرف ایک نظر بھی نہ ڈالی۔ میں اپنی ہی دنیا میں مگن تھی۔
میں نے اپنے خاوند سے کہا: جلد از جلد یہاں سے نکلو، یہاں میرا دم گھٹتا ہے۔ باہر چلو تاکہ میں کھلی فضا میں سانس لے سکوں۔ پھر ہم اپنے وزٹ کو مختصر کر کے فوراً قاہرہ واپس آ گئے۔ واپس آکر میں نے اسلام کی معرفت حاصل کرنے کی نیت کر لی۔ مال و دولت کی ریل پیل اور دنیاوی وسائل کی فراوانی کے باوجود میں طمانیت، سکینت اور قناعت سے ناآشنا تھی۔ ہر وقت کسی نہ کسی بات کی ٹینشن رہتی تھی۔ جب سے میں نے نماز ادا کرنی شروع کی، قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگی تو پہلی مرتبہ اطمینان قلب کی دولت سے آشنا ہوئی۔ میں گھنٹوں قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول رہتی۔ اب میں نے تفسیر ابن کثیر کا بھی مطالعہ شروع کر دیا۔ اپنی ساری جاہلانہ عادتیں اور سرگرمیاں ترک کر دیں۔ اب میرا زیادہ تر وقت ان خواتین کے ساتھ گزرتا جو اسلامی تعلیمات کے حصول میں مشغول ہوتیں یا دعوت کے کام سے وابستہ ہوتیں۔ میرا خاوند بھی میری طرح ماڈرن خیالات کا تھا۔ جب ہم ملے تھے تو اُس وقت دونوں مادر پدر آزادی کے دلدادہ تھے۔ اب میں نے اسلامی طرز زندگی اختیار کر لیا۔ حجاب اوڑھنا شروع کر دیا۔ اس نے شدید مزاحمت کی ہمارے اختلافات شدت اختیار کر گئے ۔
میں اپنے خالق سے تعلق جوڑ چکی تھی۔ اب مخلوق کی خاطر میں خالق کی نافرمانی نہیں کر سکتی تھی۔ میں پوری طرح ثابت قدم تھی۔ میرے خاوند کویہ سب کچھ دقیانوسی محسوس ہوتا۔ قریب تھا کہ ہمارے درمیان علیحدگی ہو جاتی۔حلاوتِ ایمان کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ انسان اللہ اور اُس کے رسولؐ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت رکھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’جس شخص میں تین باتیں پائی جاتی ہیں، وہ ایمان کی مٹھاس کو پا لیتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ ساری مخلوق سے زیادہ محبت رکھے۔ دوسری یہ کہ وہ جب کسی سے محبت رکھے تو محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسری یہ کہ جب اللہ نے اسے کفر سے بچا لیا ہے تو اب کفر کی طرف جانا ایسے ہی ناپسند کرے جیسے وہ آگ میں پھینکے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری: 16)
میں نے پردے کے بغیر مردوں کے سامنے جانا چھوڑ دیا۔ ہمارے اعزہ و اقارب میں رواج تھا کہ عورتیں بھی مردوں سے مصافحہ کرتی تھیں۔ میں نے یہ مصافحہ کرنا بھی چھوڑ دیا۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے اپنے چھوٹے سے گھر پر پوری طرح اسلام نافذ کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے خاوند کو ہدایت دے دی۔ اب وہ مجھ سے بھی بہتر مسلمان بن چکا ہے۔ اب نہ صرف وہ دین کا خاطر خواہ علم حاصل کر چکا ہے، بلکہ دین کا داعی بھی چن چکا ہے۔