میرا بیٹا فیل ہونے کا مستحق ہے تو فیل ہونے دیجئے

ٹائمز آف انڈیا (21مئی 1985ء ) میں مسٹر جارج منزیز نے اپنا قصہ شائع کیا ہے۔ انہیں ایک کالج کے سمر کیمپ کا افتتاح کرنا تھا۔ مسٹر جی بی کھیر جب بمبئی کے وزیرِ تعلیم تھے تو ان کے والد اس وقت وزارت تعلیم میں انڈر سیکرٹری تھے۔ میٹرک کا رزلٹ آیا تو مضمون نگار کے بھائی ریاضی میں چند نمبروں سے فیل ہو گئے۔ ایک ماسٹر صاحب ازراہ خیر خواہی طالب علم کے والد (انڈر سیکرٹری وزارتِ تعلیم) سے ملے۔

انہوں نے کہا آپ ماڈریٹر (Moderator)کو ایک ٹیلی فون کر دیں اور سب معاملہ درست ہو جائے گا۔ مضمون نگار کا بیان ہے کہ ان کے والد نے اس کے جواب میں کہا کہ میرا لڑکا اگر فیل ہونے کا مستحق ہے تو اس کو فیل ہونے دیجئے۔

یہ واقعہ اس کو ایک اچھا سبق دے گا:
If may son deserves to fail, let him fail. It will teach him a valuable lesson.
مضمون نگار کہتے ہیں کہ مذکورہ سمر کیمپ کا افتتاح کرتے ہوئے میں نے واقعہ بیان کیا تو طلبہ نے اس کو اس طرح سنا کہ جیسے وہ بالکل غیر اہم بات ہو، حتیٰ کہ ایک نوجوان نے کھڑے ہو کر کہا کہ آپ کے والد کوئی بے وقوف آدمی ہوں گے۔ اگر وہ میرے ساتھ ایسا کرتے تو میں انہیں مار ڈالتا۔
Your father must have been a fool. I would have killed him if he had done that to me.

آج کل کے نوجوانوں میں یہ مزاج عام ہے۔ اس مزاج کو پیدا کرنے کی اصل ذمہ داری لیڈروں پر ہے۔ لیڈروں نے اپنی مخالف حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے نوجوانوں کو بھڑکایا۔ وہ ان کی تخریبی کارروائیوں کو صحیح بتاتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ماضی کی تمام روایات ٹوٹ گئیں۔ آدمی کے سامنے اس کی خواہشات اور مفادات کے سوا کوئی چیز نہیں رہی جس کا وہ لحاظ کرے۔

احترام کی روایات کو توڑنے کا مزاج اگر ایک بار پیدا ہو جائے تو وہ کسی حد پر نہیں رکتا۔ غیروں کو بے عزت کرنے والے بالآخر اپنوں کو بھی بے عزت کر کے رہتے ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button