بُرے نام کے شخصیت پر منفی اثرات

ایک شخص کے ہاں بچی کی ولادت ہوئی۔ اس نے اپنی بیٹی کا نام ’’ولہ‘‘ رکھا۔ نہ اسے اس کے معنی معلوم تھے، نہ ہی وہ اس لفظ کی اساس سے واقف تھا۔ جدید اور انوکھا نام رکھنے کے شوق میں اس نے یہ نام رکھ لیا تھا۔ نام رکھتے ہی بچی کو ہسٹریا کے دورے پڑنے لگے۔ ڈاکٹروں نے چیک کیا تو بچی بالکل ٹھیک ٹھاک تھی، بظاہر ان دوروں کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔

بچی کے والدین اسے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئے، اس کا بھی یہی جواب تھا کہ بچی بالکل ٹھیک ہے۔ بظاہر دورے پڑنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ انہوں نے کئی ایک نامور ڈاکٹروں سے چیک اپ کروایا، مگر دورے رکے نہ دوروں کی وجہ سمجھ میں آئی۔ ان کے ایک عزیز نے مشورہ دیا کہ ڈاکٹروں کو تو بہت دکھا لیا اب کسی عالم دین سے رابطہ کرو۔ وہ ایک عالم کے پاس گئے۔ اسے ساری روداد سنائی۔ عالم نے پوچھا :کیا بچی کا نام رکھتے ہی ہسٹریا کے دورے پڑنے لگے ؟ انہوں نے کہا: ’’جی ہاں۔‘‘ عالم نے پوچھا: ’’بچی کا نام کیا رکھا تھا؟‘‘

انہوں نے بتایا: ’’ولہ‘‘ شیخ کہنے لگے: یہ نام ہی اس کی بیماری کی اصل وجہ ہے، یہ نام تبدیل کر دو۔ انہوں نے نام بدل دیا تو لڑکی بالکل ٹھیک ہو گئی جیسے اسے کوئی بیماری تھی ہی نہیں۔ انہوں نے شیخ سے پوچھا: اس نام میں کیا خرابی تھی؟ شیخ نے بتایا: یہ اس شیطان کا نام ہے جو بیت الخلاء سے منسلک ہے۔ نام رکھتے وقت اس کے معنی اور بیک گراؤنڈ پر بھی غور کر لیا کریں ۔ ناموں کے بھی اثرات ہوتے ہیں جیسا کہ ہمیں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں پیش آنے والے درج ذیل واقعے سے پتہ چلتا ہے:

یحییٰ بن سعید کہتے ہیںکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی سے پوچھا: تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا : جَمْرَ ۃُ (انگارہ) ۔ آپ نے پوچھا: کس کے بیٹے ہو؟اس نے جواب دیا: اِبْنُ شِھَابٍ(شعلے کا بیٹا)۔ پھر پوچھا: کس قبیلے سے ہو؟ اس نے جواب دیا: مِنَ الْحُرَقَۃِ ’’بنوحرقہ (جلنے والوں) سے۔‘‘انہوں نے دوبارہ سوال کیا: وہ کس قبیلے کی شاخ ہے؟ اس نے جواب دیا: ’’مِنْ بَنِی ضِرَامٍ( شعلوں کی اولاد) سے۔‘‘

اسی طرح جناب عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے رہن سہن کے متعلق بھی تین چار سوال کیے۔ وہ انہی الفاظ کے ساتھ جواب دیتا رہا جو آگ اور اس کے مترادفات کے ہم معنی تھے۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوری معلومات لے لیں تو کہا: ہم آگ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، فرمایا: اپنے گھر والوںکے پاس جاو، مجھے لگتا ہے کہ آگ ان کے گھروں تک پہنچ چکی ہے۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ جب وہ اپنے قبیلے کی طرف لوٹا تو واقعی آگ ان کے گھروں کو لپیٹ میں لے چکی تھی۔ اس نے کوشش کر کے آگ بجھا دی۔ یہ درست اندازہ یا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبردست فراست کا نتیجہ ہے یا پھر انہیں کوئی الہام ہو گیا تھا۔

اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برے نام تبدیل کر دیا کرتے تھے۔
قارئین کرام! ابتداء میں ذکر کیے گئے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں بچوں کے نام بہت سوچ سمجھ کر رکھنے چاہئیں۔ کوشش کریں کہ لڑکوں کے نام انبیاء علیہم السلام، صحابۂ کرام، تابعین عظام، محدثین اور علمائے کرام اور اسی طرح بیٹیوں کے نام انبیاء کی بیٹیوں، عورتوں اور صحابیات کے ناموں پررکھیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو عبداللہ اور عبدالرحمن نام بہت پسند ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button