ماروی کی جان کیوں نہ بچائی جا سکی؟
17 سالہ ماروی کی شادی اس کے ہم عمر کزن سے کر دی گئی جو ان پڑھ تھا اور پیشے کے لحاظ سے ماہی گیر تھا۔ ماروی کا کوئی بھائی نہ ہونے کی وجہ سے اس کا شوہر ماروی کے والدین کے ساتھ ’’گھر داماد‘‘ بن کر رہنے لگا۔ وہ مچھلی پکڑنے کے لیے ہفتوں گھر سے دور رہتا، اور پھر ایک یا دو ہفتے کے لیے گھر واپس آتا۔
ماروی ایک دور دراز گاؤں میں رہتی تھی جہاں صحت کی کوئی سہولت، اسکول یا بازار نہیں تھا۔ کچی سڑکیں تھیں اور ٹرانسپورٹ نہیں تھی۔ موبائل فون کے سگنل بھی دستیاب نہیں تھے۔ گاؤں کا ایک کمپاؤنڈر گاؤں کے مکینوں کو خدمات فراہم کرنے کے لیے گلیوں میں گھومتا تھا۔
جب ماروی حاملہ ہوئی تو وہ بہت خوش تھی لیکن غربت اور دیکھ بھال تک رسائی کے مسائل کی وجہ سے قبل از پیدائش کی دیکھ بھال کے لیے کسی ڈاکٹر سے رجوع نہ کیا گیا۔ حاملہ ہونے کے دوران اسے سر درد، قے، جسم میں درد، کمزوری، بینائی کا دھندلا پن اور جسم میں سوجن کے مسائل کا سامنا رہا۔ اس نے ہاتھ پاؤں اکڑے ہونے کی بھی شکایت کی۔ خطرناک علامات کو دیکھ کر اسے متنبہ ہو جانا چاہئے تھا لیکن وہ غافل رہی کیونکہ وہ کم عمری کی وجہ سے نہیں جانتی تھی کہ یہ ‘خطرے کی نشانیاں ہیں۔
ایک دن جب اسے درد کی تکلیف ہونے لگی تو کمپاؤنڈر کو بلایا گیا جس نے بتایا کہ اس کا بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے۔ جلد ہی اس کے منہ میں جھاگ نکلنا شروع ہو گئی اور پھر بے ہوش ہو گئی۔ اس کے بعد ایک مولوی کو بلایا گیا، جس نے "مصری” (چینی) کو "دم” کے ساتھ دیا (مقدس آیات پڑھ کر چینی پر پھونک ماری)۔ اس وقت اندام نہانی سے سبز رنگ کا مادہ ( میکونیم جنین کی تکلیف کا ثبوت) بھی دیکھا گیا۔ اس کی حالت بہتر نہیں ہوئی اور پھر دائی کو بلایا گیا، نوزائیدہ بچے کا سر دکھائی دے رہا تھا اور خاندان نے دائی کے مشورے پر اسے ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا۔
وہ قریبی ہسپتال گئے، جہاں گاڑی میں موجود گیٹ پر اسے چیک کیا گیا اور اسے سجاول(سندھ) کے ہسپتال ریفر کر دیا گیا۔ وہ آدھے گھنٹے میں سول ہسپتال سجاول پہنچ گئے اور وہاں بھی گاڑی میں اس کا معائنہ کیا گیا اور اہل خانہ نے بتایا کہ چونکہ وہ فٹ ہے اسے سول ہسپتال ٹھٹھہ لے جایا جائے۔ صحت کی کسی بھی سہولت پر کوئی ابتدائی طبی امداد نہیں دی گئی۔
ٹھٹھہ کے سول ہسپتال میں نرس نے اس کا معائنہ کیا اور انجیکشن لگائے لیکن ان کی حالت بہتر نہ ہونے پر انہیں کراچی جانے کا کہا گیا۔ انہوں نے کراچی کا سفر شروع کیا اور گاگر پھاٹک پر ڈرائیور نے ان کے لیے ایمبولینس کا انتظام کیا، کیونکہ ایمبولینس میں کراچی کی سڑکوں پر جانا آسان ہے۔ ایمبولینس کا بندوبست کرتے ہوئے ان کا قیمتی وقت ضائع ہوا۔ ایمبولینس میں سفر کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر (JPMC)، کراچی پہنچنے میں 3 گھنٹے لگے۔ وہاں اسے فوری طور پر حاضر کیا گیا اور گھر والوں کو اطلاع دی گئی کہ بچہ مر گیا ہے۔
لواحقین نے ڈاکٹروں کو بچے کی پیدائش کی اجازت نہیں دی اور چاہتے تھے کہ مریض پہلے ٹھیک ہو جائے۔ ماروی نے اس دوران کسی قسم کا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر پہنچنے کے دو گھنٹے کے اندر انتقال کر گئی۔
ماروی کی لاش کو ایمبولینس میں واپس گاؤں پہنچایا گیا۔ راستے میں کسی مقام پر ڈرائیور نے آگے جانے سے انکار کر دیا اور گھر والوں کو گاڑی سے باہر نکلنے کو کہا۔ کافی منت سماجت کرنے اور اضافی رقم ادا کرنے کے بعد، وہ انہیں گاؤں لے جانے پر راضی ہو گیا۔ ماروی کو سپرد خاک کر دیا گیا اور اس کی آخری رسومات ادا کرنے کے کئی دن بعد ان کے شوہر ماہی گیری سے واپس آئے۔
دیکھا جائے تو ماروی کی ہلاکت میں کئی عوامل شامل ہیں، شوہر اور گھر والوں کی طرف سے مناسب دیکھ بھال میسر نہ ہونا، کم عمری کی شادی اور حاملہ ہونا، اور بروقت صحت کی سہولیات کا دستیاب نہ ہونا۔ زچگی کے دوران اموات کی شرح پر قابو پانے کیلئے ضروری ہے کہ تمام عوامل پر غور و خوض کر کے تدارک کیا جائے۔