دکھی انسانیت کو تصویر نہیں خدمت کی ضرورت ہے
کیون کارٹر (Kevin carter) 13 ستمبر 1960 کو جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں پیدا ہوا۔ اس کے آبا و اجداد برطانیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ 1980 میں جبکہ اس کی عمر 20 سال تھی، اس نے روزی روزگار کی تلاش شروع کر دی اور بطور ویٹر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ بعد اسے فوج میں ملازمت مل گئی۔ 1983 تک وہ فوج میں کام کرتا رہا کہ اس دوران ایک بم دھماکے کے نتیجے میں 19 افراد کی ہلاکت سے دل برداشتہ ہو کر فوج سے مستعفی ہو گیا۔
بعد ازاں اس نے ایک مقامی کیمرا سپلائی شاپ پر بطور فوٹو گرافر کام کا آغاز کیا اور یہاں سے بتدریج وہ تصویری صحافت سے منسلک ہو گیا۔ اس میدان میں پہلے پہل اس نے جوہانسبرگ سنڈے میگزین میں اسپورٹس فوٹو گرافر کے طور پر ذمہ داریاں نبھائیں، کرتے کرتے وہ ایک کہنہ مشق اور موقع شناس فوٹو گرافر بن گیا اور اب اس نے اپنے فن کو وسعت دینا شروع کر دی۔
یہ 1993 کی بات ہے جب سوڈان کو ایک طویل ہلاکت خیز قحط سالی نے ہلا کر رکھ دیا، ہر طرف موت بکھری ہوئی تھی، قحط سالی میں ویسے بھی زندگی گراں اور موت ارزاں ہوتی ہے۔ چنانچہ کیون کارٹر نے قحط سالی کے ہولناک مناظر کی عکس بندی کرنے سوڈان جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں اس نے مختلف مقامات کی تصاویر لیں، ایک ویران اور اجڑے گاؤں کی تصویر لیتے ہی اسے جب قریب ہی ایک بچی کی دل دوز چیخوں کی آوز سنائی دی، آواز کا تعاقب کرتے وہ اس بچی تک پہنچ گیا۔
اس نے دیکھا کہ تقدیر کی ستم ظریفی کا شکار ایک بچی موت و حیات کی کشمکش میں ہچکیاں لے رہی ہے، قریب ہی ایک بھوکا گدھ اس کی موت کا منتظر بیٹھا ہے کہ کب یہ بچی زندگی کی قید سے آزاد ہو اور وہ اسے نوچ نوچ کھائے۔ تب کیون کارٹر نے اپنی مہارت و مشاقی کو کام میں لاتے ہوئے ایسے زاویے سے منظر کی عکاسی کرتی تصویر کھینچی، جس کی بدولت وہ صحافتی حلقوں میں شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچا۔ چونکہ ہر طرف خوف، وحشت اور سناٹے کا راج تھا، لہذا اس نے وہاں سے جلد نکلنے کا فیصلہ کیا اور یہ تصویر اپنے کیمرے میں محفوظ کر کے اپنے شہر لوٹ گیا۔
اب اس کہانی کا دوسرا رخ شروع ہوا، اس تصویر پر اسے بڑی داد و تحسین ملی، یہاں تک کہ اسے ایک بڑی تقریب میں اس وقت کے سب سے بڑے "پلٹرز ایوارڈ” سے نوازا گیا، جوں ہی وہ ایوارڈ تھامے تفاخر سے ہال سے باہر نکلا، ایک شخص اس کا منتظر کھڑا تھا۔ اس نے کیون سے پوچھا کہ "اس کے بعد اس بچی کا کیا بنا؟” کیون نے کہا کہ "مجھے نہیں معلوم، میں فورًا ہی وہاں سے نکل آیا تھا۔” تب اس شخص نے کہا کہ "میرے نزدیک وہاں ایک نہیں، دو گدھ تھے، ایک بچی کی موت کا منتظر اور دوسرا ہاتھ میں کیمرا لیے، رویے کے اعتبار سے آپ اور اس گدھ میں کوئی فرق نہیں۔”
اس ایک جملے نے اس کے ذہن و ضمیر پر ایسی دستک دی کہ پھر وہ ایک سال تک اپنے آپ کو کوستا اور ملامت کرتا رہا۔ اس کا ضمیر جاگ اٹھا اور ایسا کہ کیون کارٹر نے تنگ آکر ایک سال بعد 1994 میں اپنی گاڑی میں خودکشی کر لی۔ شاید کہ وہ اس ایوارڈ کو دو دن بھی مسرت آمیز نگاہوں سے نہیں دیکھ پایا۔ قارئین! معذرت کے ساتھ، مجموعی حیثیت سے ہمارا سماجی رویہ بھی کیون کارٹر اور اس گدھ سے مختلف نہیں ہے۔ ہمارے ہاں لوگ مشکلات میں گھرے رہتے ہیں، نہروں، دریاؤں اور ساحل سمندر پر ڈوب رہے ہوتے ہیں، پہاڑی ڈھلوانوں سے لڑھک رہے ہوتے ہیں، جلاؤ گھیراؤ کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں، لڑائی جھگڑوں میں لہو لہان ہو رہے ہوتے ہیں، ٹریفک حادثات کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں، فسادات میں یرغمال ہو رہے ہوتے ہیں، ہنگاموں میں دکانیں جل رہی ہوتی ہیں، بیمار سڑکوں پر سسک رہے ہوتے ہیں اور زخمی چوک چوراہوں میں تڑپ رہے ہوتے ہیں۔ ہم اس گدھ کی طرح تماشا دیکھنے میں مگن ہو جاتے ہیں یا سوشل میڈیا پر اپنی ریٹنگ بڑھانے اور لائکس (likes) حاصل کرنے کے لیے کیون کارٹر بن جاتے ہیں۔
اس روش بیمار نے ہمارے ضمیر کو سلا کر سماج سے تعلق رکھنے والی ہمدردی، اخوت، باہمی تعاون، ضرورت مندوں کی امداد اور دکھی انسانیت کی غم گساری جیسی اسلامی اور انسانی صفات سے محروم کر دیا ہے۔ لہٰذا تصویر کشی کی بجائے ضرورت مندوں کو جس نوع کی مدد کی ضرورت ہو وہ مدد کی جائے، ورنہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر ہمارا ضمیر جاگ سکتا ہے، دماغ پر کوڑے اور دل پر تازیانے برسا سکتا ہے، نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے، تب ہمارے پاس ندامت، افسوس، حسرت اور خود کو ملامت کرنے کے علاوہ کچھ نہ ہوگا اور نہ کل اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینے کا سامان۔