سٹوڈنٹ گاؤن نے طالبہ کی زندگی بدل ڈالی
لیلیٰ مصر کے ایک بہت بڑے بزنس مین کی بیٹی تھی۔ مصر کی مالدار کلاس مغربی طرز زندگی کی دلدادہ تھی وہ مغرب کی نقالی ہی کو ترقی کی معراج سمجھتے تھے۔ لیلیٰ بھی اسی ثقافت اور کلچر میں پلی بڑھی۔ اُس کا بچپن اپنے والد کے وسیع و عریض محل میں گزرا۔ انہیں اپنے طبقے کے علاوہ دیگر مصریوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اُن کے گھر میں ٹی وی، انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ بھی مغربی چینلز اور مغربی افکار اور معلومات کے لیے وقف تھے۔
لیلیٰ عرب کلچر بلکہ بہت حد تک عربی زبان سے بھی نابلد تھی۔ اسے بچپن ہی سے پہننے کے لیے مغربی ملبوسات دیے گئے۔ لیلیٰ نے ابتدائی تعلیم مصر کے ’’سینیٹ جارج‘‘ (Saint George)سکول میں حاصل کی، پھر مزید تعلیم کے لیے مغرب کے معروف کالجز اور یونیورسٹیوں کا رُخ کیا۔ اُس نے سوربون یونیورسٹی (Sorbonne University)پیرس سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے مقالے کا عنوان تھا:
Importance of Western thought in construction of human civilization.
’’انسانی تہذیب کی تعمیر میں مغربی فکر کی اہمیت۔‘‘
لیلیٰ نے اس مقالے کی تیاری میں چار سال صرف کیے تھے۔ آخر وہ یاد گار دن بھی آ گیا۔ جب اُسے اُس کی شبانہ روز محنت کا صلہ مل رہا تھا۔ اُسے پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا جا رہا تھا۔ آج کل اُسے خواب بھی اسی طرح کے آ رہے تھے کہ وہ ایک گاؤن یا عبایا پہنے ڈگری لینے کے لیے سٹیج پر جا رہی ہے۔ لیلیٰ نے پیرس کے ایک مشہور زمانہ اسٹور سے اس فنگشن کے لیے عبایا خریدی ۔
یہ اُس کی زندگی کی سب سے اہم تقریب تھی۔ گاؤن خرید کر واپس آتے ہوئے وہ اپنی دوست ’’آن‘‘ کے گھر چلی گئی تاکہ خوشی کے یہ لمحات اُس کے ساتھ بھی شیئر کر سکے۔ آن کے ساتھ ہونے والی گفتگو نے لیلیٰ کی زندگی کو بدل کے رکھ دیا۔ آن نے پوچھا: لیلیٰ! تم اس گاؤن کی تاریخ جانتی ہو؟ لیلیٰ نہیں! لیکن تم آج یہ سوال کیوں پوچھ رہی ہو؟ مغربی یونیورسٹیز میں شروع ہی سے یہ رواج چلا آ رہا ہے اور ان کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں کی یونیورسٹیوں نے بھی اسے اختیار کر لیا ہے۔
آن :لیلیٰ تم اس کی تاریخ سے کس قدر نابلد ہو ۔ اس کی ابتداء اہل مغرب نے نہیں کی بلکہ ایک وقت تھا کہ اندلس کی یونیورسٹیاں مغرب میں علم، تہذیب، تمدن اور ثقافت کے لیے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی تھیں۔ یہاں سے فارغ ہونے والے طلباء عربی عبایا پہنا کرتے تھے۔ مغربی معاشرے میں ان طلباء کو اپنے علم اور ثقافت کی وجہ سے نمایاں مقام حاصل ہوتا تھا۔ وہ علم و ثقافت جو ہر علاقے کے طلباء اپنے اساتذہ سے سیکھا کرتے تھے، اہل مغرب ابھی تک اُسی کی نقالی کرتے چلے آ رہے ہیں۔
اس انکشاف نے لیلیٰ کا دل و دماغ روشن کر دیا ۔ وہ ساری تاریکیاں چھٹ گئیں جو بچپن ہی سے تہ در تہ اُس کے ذہن میں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھیں کہ تہذیب و تمدن کی اصل مغربی فکر ہے۔ لیلیٰ کو آج پہلی مرتبہ اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہو رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی:
’’ہم تو اصل ہیں، ہم تو بنیاد ہیں۔‘‘
آج اُسے اپنے دادا کے الفاظ یاد آ رہے تھے : میری پیاری بیٹی! اسلامی شخصیت ہی متوازن شخصیت ہے۔ لیلیٰ فرانس سے واپس آئی تو اُس کے ہاتھ میں پی ایچ کی ڈگری تھی، لیکن اب اس کے دل و دماغ پر اندلس کی آٹھ سو سالہ ثقافت اور کلچر (Culture & Civilization) چھایا ہوا تھا۔ اُس نے اپنی تاریخ سے دور رہ کر زندگی کا بہت بڑا حصہ ضائع کر دیا۔ اب لیلیٰ ایک نئی فکر لے کر آ رہی تھی کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو بتائے گی کہ
Importance of Islamic thought is construction of human civilization.
یعنی ’’انسانی تہذیب کی تعمیر میں اسلامی فکر کی کیا اہمیت ہے۔‘‘
مصر واپس آ کر لیلیٰ کی شادی ہو گئی ۔اُس نے اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم و تربیت کے لیے ’’سان جورج‘‘ نہیں بھیجا، بلکہ ابتدائی تعلیم اور قرآن مجید حفظ کرنے کے لیے مکتب میں بھیجا جسے اُس دور کی اصطلاح میں (الکُتَّاب) کہا جاتا تھا۔ لیلیٰ کو اندلس کی حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلنے پر بہت غم و غصہ تھا۔ پھر جب وہ ایک تعلیمی ادارے میں لیکچرار کے فرائض انجام دینے لگی تو اُس نے اپنے آپ سے ایک عہد کیا کہ وہ اپنی شاگردوں کو یہ بات ذہن نشین کرائی گئی کہ انسانی تہذیب و تمدن کی تشکیل میں اسلامی افکار و تعلیمات کا کتنا کردار ہے۔