ماڈرن رئیس زادی سے شادی کا عبرتناک انجام

یہ ایک تاجر اور اس کے بیٹے کی کہانی ہے۔ اس تاجر نے شب و روز بڑی محنت کر کے مال کمایا تھا۔ اسے وراثت میں کچھ نہیں ملا تھا۔ اس کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ جس طرح میں نے اپنا بچپن اور جوانی انتہائی تنگی اور عسرت میں گزاری ہے، میرے بیٹے کو اس کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کا بیٹا انتہائی ناز و نعم میں پرورش پا رہا تھا، اسے ہر سہولت میسر تھی۔ اس کی زبان سے نکلی ہوئی ہر خواہش فوراً پوری کر دی جاتی تھی تاجر بے چارے کو محسوس ہی نہ ہوا کہ کب اس سے اعتدال اور توازن کا دامن چھوٹ گیا اور بیٹا بے جا لاڈ پیار کی وجہ سے انتہائی ضدی اور بداخلاق ہو گیا۔ بگڑے ہوئے امیرزادوں کی ساری قباحتیں اس میں پیدا ہو گئیں۔ پڑھائی میں اس کا دل بالکل نہیں لگتا تھا، جیسے تیسے کر کے وہ یونیورسٹی میں پہنچ گیا۔

یونیورسٹی میں اس کی ملاقات اپنی ہی طرح کی ایک رئیس زادی سے ہو گئی جو انتہائی ماڈرن اور آزاد خیال تھی۔ اس نوجوان نے اپنے والدین کو بتایا کہ مجھے ایک لڑکی پسند آ گئی ہے میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ والدین کہنے لگے: بیٹا شادی کوئی گڈی گڈے کا کھیل نہیں ہے۔ اس میں بڑی سوچ بچار اور تدبر سے کام لینا پڑتا ہے۔ پہلے ہماری اس لڑکی سے ملاقات کراؤ۔ ہم اس کی سیرت و کردار کو جانچیں۔ اس کے فیملی بیک گراؤنڈ کو چیک کریں۔

نوجوان اٹل لہجے میں کہنے لگا: ان سب باتوں کا وقت گزر چکا ہے۔ میں اسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس سے باز نہیں رکھ سکتی۔ والدین کے لاکھ سمجھانے اور مخالفت کے باوجود وہ اُس لڑکی کو بیاہ لے آیا۔ شادی کے چند ہی ہفتوں بعد نوبیاہتا بیوی کے کہنے پر اُس نے والدین سے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ یہ گھر دو فیملیوں کیلئے ناکام ہے، آپ ہمیں نیا گھر لے کر دیں۔ والدین کیلئے یہ مطالبہ کسی صدمے سے کم نہ تھا کیونکہ وہ ان کی اکلوتی اولاد تھا۔ تاہم بیٹے کی خوشی کی خاطر اس گھر جس کی ایک ایک اینٹ سے انہیں پیار تھا اور جہاں بیٹے کا بچپن اور والدین کی ایک عمر گزری تھی کو بیچ کر ڈبل سٹوری گھر لینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن بیٹا اس طرح کے لطیف جذبات و احساسات سے عاری تھا۔

انہوں نے یہ مکان بیچ کر ڈبل سٹوری مکان خریدا جس میں بیٹا بہو نچلی منزل اور والدین اوپر والی منزل پر رہتے۔ بہو کے چال چلن بھی بدلنے لگے اور وہ ساس سسر سے انتہائی بدتمیزی سے پیش آنے لگی۔ بیٹے کی ولادت کے بعد وہ اور زیادہ متکبر ہو گئی۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ساس سسر کو چلتا کر دے لیکن مکان سسر کے نام تھا بڑی مشکل یہ تھی۔ پرانے محلہ میں تو پھر کوئی نہ کوئی میاں بیوی سے ملنے آ جاتا تھا لیکن یہاں تو وہ بات بھی ختم ہو گئی تھی۔

ان غموں کو لیے ساس بھی موت کی آغوش میں چلی گئی، اب وہ غم گسار بھی نہ رہی۔ دادا کا کبھی پوتے سے کھیلنے کا دل کرتا لیکن اُن کی ماں بیٹے کو دادا کے پاس نہ پھٹکنے دیتی جیسے وہ اچھوت ہو۔ غموں اور دکھوں نے بوڑھے باپ کو بیمار اور اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔ ایک دن جب تکلیف حد سے بڑھی تو اُس نے بیٹے سے کہا کہ وہ اُسے ہسپتال لے جائے لیکن ناخلف بیٹا بولا: میرے پاس آپ کے چونچلوں کیلئے وقت نہیں۔ انتظار کریں خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ بیٹا اس لیے بھی باپ کو ہسپتال نہ لے جاتا کہ اس طرح اُس کا پول بھی کھل جاتا کہ بظاہر مہذب نظر آنے والے کتنے بدتہذیب ہیں۔

ایک دن میاں بیوی نے رات کے اندھیرے میں بوڑھے والد کو چادر میں لپیٹ کر گھر سے باہر پھینک دیا۔ صبح جب نماز کیلئے لوگ آنا جانا شروع ہوئے تو کوئی گھر کا بوسیدہ سامان جو کہ بلدیہ کے ڈبے کے بجائے راستے میں ڈال دیا گیا ہو سمجھ کر گزر گیا، کوئی خوفزدہ ہو کر اس سے گزر گیا۔ آخر میں کچھ لوگوں نے ٹھہر کے چادر کو کھول کے دیکھا تو یہ دیکھ کر ان کے پاؤں تلے زمین نکل گئی کہ یہ تو بوڑھا انسان تھا جو کہ ہڈیوں کا ڈھانچا لگ رہا تھا۔ اس کی ناک سے خون کی لیکر نکل کر داڑھی پر جم چکی تھی اور چیک کرنے پر اُس میں زندگی کے کوئی آثار نہ دکھائی دیے۔

پولیس کو اطلاع دی گئی جس نے موقع پر پہنچ کر لاش کو ہسپتال منتقل کیا۔ پوسٹ مارٹم کیا گیا اور تحقیقات کا آغاز ہوا۔ تھوڑی تگ و دو کے بعد میاں بیوی گرفتار ہوئے جنہوں نے پہلے بہانہ کیا کہ والد کو نیند میں چلنے کی عادت تھی، ہم تو سو رہے تھے، ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ کب کمرے سے نکل گئے۔ دن چڑھے کمرے سے نکلتے تھے اور کافی تاخیر سے ناشتہ کرتے۔ ہم سمجھے کہ ابھی کمرے میں ہوں گے۔

تھانیدار بولا: مجھے ساری حقیقت پتا چل گئی ہے، ان کی جسمانی حالت سے پتا چلتا ہے کہ تم انہیں کتنا کھلاتے پلاتے تھے، ڈاکٹروں نے بھی اپنی رپورٹ میں یہی بتایا ہے کہ مدتوں سے انہوں نے ڈھنگ کا کھانا نہیں کھایا۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ تم بچ جاؤ گے، میں تمہیں بڑے میاں کے قتل کے جرم میں سزائے موت دلوا کر رہوں گا۔ یہ سن کر دونوں کے رنگ زرد پڑ گئے اور زبان ہکلانے لگی۔ پھر دونوں کی آپس میں تو تکار شروع ہو گئی اور ایک دوسرے کو لعن طن اور الزام تراشی کرنے لگے۔

دونوں میاں بیوی کی تھوڑی دھلائی کے بعد انہوں نے جو حقیقت تھی بتا دی۔ بہو کو تو کچھ عرصہ بعد رہا کر دیا گیا کیونکہ اس کی وجہ سے بچہ متاثر ہوتا تھا۔ بیٹے کو والد کے قتل کے جرم میں بیس سال قید کی سزا ہوئی۔ بیس سال قید کا دورانیہ بھی جیسے تیسے گزر گیا اور اس دوران اس کا بیٹا بھی اکیس بائیس برس کا کڑیل جوان بن چکا تھا۔ رہائی کے روز دونوں ماں بیٹا اُسے لینے آ رہے تھے۔ بیٹے کو باپ سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔ جیل کے دروازے کے نزدیک گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے وہ تھوڑے فاصلے پر گاڑی میں بیٹھے انتظار کر رہا تھا۔

جونہی وہ شخص جیل سے باہر آیا تو ماں نے بیٹے کو بتایا کہ وہ رہا تمہارا باپ۔ بیس برس کی جدائی کے بعد باپ کو دیکھ کر لڑکا باپ سے مل رہا تھا اور اس نے گاڑی باپ کی جانب بڑھائی لیکن پاس پہنچ کر وہ گاڑی کی بریک پرپاؤں رکھنے کے بجائے ایکسلیٹر دبا بیٹھا اور گاڑی اس شخص سے زور سے ٹکرائی اور وہ گھائل ہو کر گر پڑا۔ لڑکا اُتر کر نیچے اپنے باپ کے پاس آیا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی اور وہ اس دنیا میں نہیں تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی ناک سے خون نکل کر اس کی مونچھوں اور داڑھی پر بہہ رہا تھا۔ یہ وہی منظر تھا جو آج سے بیس برس قبل فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے جانے والے نمازیوں نے دیکھا تھا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button