خاتون کی دانش مندی، گھر اجڑنے سے بچ گیا

ایک خاندان بڑی ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا۔ خاوند ایک اعلیٰ منصب پر فائز تھا، جبکہ خاتون ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں شعبۂ تدریس سے وابستہ تھی۔ ان کے چار بچے تھے۔ زندگی کی گاڑی بڑے خوشگوار انداز میں آگے بڑھ رہی تھی۔ انہوں نے گھریلو کام کاج کے لیے ایک خادمہ بھی رکھی ہوئی تھی۔ اس کا تعلق مشرق بعید کے ملک فلپائن سے تھا۔

ایک دن خاوند دفتر سے جلدی واپس آ گیا کیونکہ اسے سفر پر جانا تھا اور سفر کی تیاری کیلئے وقت درکار تھا۔ گھر میں خادمہ اکیلی تھی۔ بچے سکول میں تھے۔ بیوی بھی ابھی واپس نہیں آئی تھی۔ شیطان نے اس کے دل میں وسوسے ڈالنے شروع کر دیے، اس سے اچھا موقع نہیں مل سکتا، کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو گی۔

اس حوالے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کس قدر حکمت پر مبنی ہے: جب ایک مرد اور خاتون کسی جگہ پرتنہا ہوتے ہیں تو تیسرا وہاں شیطان آ دھمکتا ہے۔ اس شخص نے خادمہ کو اپنے پاس بلایا۔ تھوڑی سی ترغیب و تحریص دلائی۔ شاید وہ پہلے ہی ایسے کاموں کی عادی تھی۔ جھٹ سے بدکاری کیلئے تیار ہو گئی۔

ادھر اس کی بیوی نے سوچا کہ مجھے سفر کی تیاری میں خاوند کی مدد کرنی چاہیے۔ وہ وقت سے پہلے واپس آ گئی۔ یہ دیکھ کر اس کے پاؤں تلے سے زمین نگل گئی کہ اس کا خاوند خادمہ کے ساتھ بیڈ روم میں قابل اعتراض حالت میں تھا۔ اس خاتون نے اس موقع پر بڑے فہم و فراست اور تدبر کا مظاہرہ کیا۔ وہ فوراً سکول واپس چلی گئی اور چھٹی کے بعد واپس گھر آئی۔ وہ بالکل نارمل رہی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ بڑی گرمجوشی سے خاوند کو الوداع کیا۔

قارئین کرام! اگر یہ خاتون شور مچا دیتی، لوگوں کو جمع کر کے بتاتی کہ اس کے خاوند کے یہ کرتوت ہیں تو نتیجہ کیا نکلتا؟یہی نا کہ شوہر کو وقتی طور پر ندامت ہوتی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا، مگر اس کے بعد وہ خاتون بھی اس شوہر کے ساتھ نہ رہ سکتی اور گھر نہایت سرعت سے اجڑ جاتا۔ خاتون نے ایک عمدہ پلان تیار کیا جس کے ذریعے سارے مسائل حل ہو گئے۔

خاوند کی روانگی کے بعد اس خاتون نے اپنے بھائی سے رابطہ کیا اور کہا: اس خادمہ کو ابھی اور اسی وقت اس کے ملک واپس بھیجنا ہے۔ چاہے اس کے لیے کتنا ہی پیسہ خرچ کرنا پڑے، کتنی ہی محنت کرنی پڑے، کوئی پرواہ نہیں، میں ایک لمحے کے لیے اس کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اس خاتون کے بھائی نے خادمہ کو خروج نہائی (Final Exit) پر بھیج دیا۔

ایک ہفتے بعد خاوند سفر سے واپس آیا۔ اس کے دل میں چور تھا۔ آتے ہی اس نے خادمہ کو دیکھا، لیکن وہ کہیں نظر نہ آئی۔ وہ بیوی سے استفسار کر کے اسے شک میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ وہ ایسے ظاہر کرنے لگا کہ اسے خادمہ کے گھر میں ہونے یا نہ ہونے سے کوئی سروکار نہیں، لیکن بیوی اس کے دل کی کیفیت کو خوب سمجھ رہی تھی۔ وہ اس کی حرکات کا بخوبی جائزہ لے رہی تھی۔ دو دن تک وہ خاموش رہا، تیسرے دل اس سے رہا نہ گیا۔ اس نے بیوی سے پوچھ ہی لیا: خادمہ نظر نہیں آ رہی؟

بیوی نے انجان بننے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا: اوہو! میں تمہیں بتانا ہی بھول گئی۔ تمہارے جانے کے بعد خادمہ کچھ بیمار ہوئی۔ ہسپتال میں اس کے خون کے ٹیسٹ ہوئے تو یہ دل دہلا دینے والا انکشاف ہوا کہ اسے تو ایڈز کی بیماری لگی ہوئی ہے، اس لیے میں نے اسے فوراً اس کے ملک بھیج دیا۔ یہ خبر خاوند پر بجلی بن کر گری۔ وہ اسے کیسے بتاتا کہ میں نے تمہاری عدم موجودگی میں خادمہ سے جسمانی تعلق قائم کیا تھا۔ ممکن ہے اس کے ذریعے سے اس موذی اور جان لیوا بیماری کے جراثیم مجھ میں بھی منتقل ہو گئے ہوں۔ وہ اپنی پوزیشن، عہدے، دوست احباب اور عزیز و اقارب کی وجہ سے یہاں کے کسی ہسپتال سے اپنا بلڈ ٹیسٹ کروانے کا رسک بھی نہیں لے سکتا تھا۔ لوگ تو اسے انتہائی شریف اور معزز آدمی سمجھتے تھے۔

اس انکشاف کے بعد وہ جیتے جی مر جاتا اور کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا اب وہ اندر ہی اندر گھلنے لگا۔ دفتر میں دل لگتا نہ گھر میں۔ کھانے پینے سے اس کا جی بالکل اچاٹ ہو گیا۔ اپنے بیوی بچوں کے سامنے بظاہر نارمل نظر آنے کے لیے چند لقمے زہر مار کر لیتا۔ اس کی مایوسی دن بدن بڑھتی جا رہی تھی ۔ وہ سوچتا: آیا اب میری قسمت میں اس موذی اور ذلت آمیز بیماری میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا ہی لکھا ہے؟ اس کی صحت بری طرح متاثر ہوئی۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس کا وزن سولہ کلو گرام کم ہو گیا۔ اب اسے یقین ہونے لگا تھا کہ آہستہ آہستہ موت اپنے خونی پنجے میرے جسم و روح میں گاڑ رہی ہے۔

کئی مرتبہ اس کے دل میں آیا کہ وہ کسی کے سامنے راز اگل کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر ے، لیکن پھر اسے ہمت نہ پڑی۔ کبھی کبھی وہ پختہ عزم لے کر گھر آتا کہ آج سب کچھ اپنی بیوی کو بتا دوں۔ پھر وہ ڈر جاتا کہ میں اپنی وفا شعاری، نیک سیرت بیوی کی نفرت سہہ نہیں پاؤں گا۔ میں اپنے بچوں کا سامنا کیسے کروں گا؟

آخر اس نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ میری دنیا تو تباہ ہو چکی ہے، اپنی آخرت تو سنوار لوں۔ پہلے وہ باقاعدگی سے نماز ادا نہیں کرتا تھا۔ اب اس نے بڑی پابندی سے پانچوں وقت کی نماز ادا کرنا شروع کر دیں۔ پھر اس نے تہجد بھی ادا کرنی شروع کر دی۔ بیوی یہ ظاہر کرتی جیسے وہ بے خبر سو رہی ہے۔ لیکن وہ کن اکھیوں سے اسے دیکھ رہی ہوتی تھی۔ اسے اپنے خاوند کو اللہ کے سامنے روتے، گڑگڑاتے، اپنے گناہوں کی معافی مانگتے دیکھ کر بڑی روحانی حسرت محسوس ہوتی۔ جب بیوی کو بالکل یقین ہو گیا کہ اس کا خاوند بدل چکا ہے، اب وہ نیکی کے راستے پر مکمل طور پر کاربند ہو چکا ہے تو اس نے سوچا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ خاوند کو صحیح صورت حال بتا دی جائے۔

بیوی نے اسے ساری حقیقت حال سنا دی کہ میں نے تمہیں خادمہ کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھ لیا تھا۔ تمہارے جانے کے بعد میں نے اسے اس کے ملک روانہ کر دیا۔ اسے ایڈز نہیں تھی۔ یہ محض تمہیں خوفزدہ کرنے کیلئے غلط بیانی کی تھی۔ یہ سن کر خاوند کے سر سے منوں بوجھ اتر گیا۔ اسے اپنی طبیعت بڑی ہلکی پھلکی محسوس ہونے لگی۔ اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے اس کی نئی زندگی شروع ہو رہی ہے۔ اس نے بیوی سے وعدہ کیا کہ آئندہ اس کے قدم کبھی نہیں بہکیں گے۔ بیوی نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا: تمہیں ایڈز سے ڈرانے کا مقصد بھی یہی تھا۔ اس طرح یہ خاندان دوبارہ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button