والدین پسند کی شادی کو قبول کر لیں
عموماً والدین بچوں کی دینی تربیت سے سبکدوش ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی تعلیم اور پرورش کے اخراجات برداشت کر رہے ہیں اور تربیت تعلیمی اداروں کے ذمہ ہے، ہم اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ حالانکہ والدین جب اولاد کی دینی تربیت سے غفلت کرتے ہیں تو پھر ایسے ایسے بھیانک واقعات رونما ہوتے ہیں کہ شرم و حیا بھی اپنا منہ پیٹ کر رہ جاتی ہے۔
عدم تربیت ہی کا نتیجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں مخلوط نظام تعلیم نے نکاح کو بازیچہ اطفال بنا دیا ہے اور ہر شخص زندگی کو اپنے اسٹائل کے ساتھ گزارنا اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے اور اس کی دل پسند سے شادی میں ہر رکاوٹ کو عبور کر کے خود ساختہ منزل کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن شادی کے کچھ عرصہ بعد جب محبت اور پسند کا خمار اُترتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ خاندان کی روایات اور بڑوں کی حکم عدولی کر کے کیا کھویا اور کیا پایا۔
ایک صاحب نے بتایا کہ ایک نوجوان نے اپنی والدہ کی مرضی کے خلاف اپنی محبت کی شادی کر لی۔ ماں چونکہ اس رشتہ کے خلاف تھی۔ اس لیے وہ آئے دن بیٹے کو بہو کے خلاف اکساتی رہتی۔ بالآخر ایک دن بیٹے نے تنگ آ کر اپنی بیوی کو گولی مار دی اور پھر ماں کو بلا کر کہا کہ ماں اب تو خوش رہے اور یہ کہہ کر خود بھی خودکشی کر لی۔
یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے۔ اول تو والدین بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ زندگی کے اس اہم فیصلے کو بڑوں کے حکم کے بغیر کرنے کا سوچیں ہی نہیں اور اگر محبت میں مغلوب ہو کر نکاح کر لیں تو پھر بڑوں کو چاہیے کہ وہ اس نکاح کی لاج رکھیں اور ان کی دینی تربیت کریں تاکہ وہ خاندان کا فرد بن کر رہے، اس کو اپنی غیرت اور انا کا مسئلہ نہ بنائیں اور بچوں کی اس غلطی کو قبول کریں کہ بالآخر وہ آپ کا اپنا خون ہے۔