حرمت سود پر عدالتی فیصلہ اور ہماری ذمہ داریاں

پاکستان کے عوام کے رجحانات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہونے میں دیر نہیں لگتی کہ عوام کی اکثریت قومی معاملات پر ہر درجہ منقسم اور منتشر ہے، لیکن کسی بھی نوع کے معاملات پر حد درجہ منقسم اور منتشر قوم ایک معاملے پر یک سو ہے اور وہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان سےسود کا خاتمہ۔ شروع سے آج تک مسلسل آزار کی صلیب پر لٹکے بہت سے مسائل ہیں، جن کا فیصلہ ہم پچھلے پچہتر سالوں میں نہ کر سکے، نتیجتًا ان مسائل کے رستے زخم آج ہمارے لئے ناسور بن گئے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم مسئلہ سودی نظام معیشت کا ہے، جو بہ زبان حال اللّٰہ سے اعلان جنگ کے مترادف ہے۔

سود ایک ایسا شجرہ خبیثہ ہے کہ جس معاشرے میں اس کی جڑیں گہری ہو جائیں، وہ معاشرہ معاشی اعتبار سے کبھی بھی پنپ نہیں سکتا۔ یہ ایک ایسی آکاس بیل ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک توانا ملک کو اپنی گرفت میں لے کر بتدریج معاشی یرقان میں مبتلا کر دیتی ہے اور وہ معاشرہ کبھی خوشحالی کا منہ نہیں دیکھ سکتا۔ یہ ایک ایسی دیمک ہے جو ملک کے خزانے کو اندر ہی اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کر دیتی ہے۔

بدقسمتی سے پچہتر سال سے یہ گھن ہمارے ملک کو معاشی اعتبار سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ دوسری طرف یہ کوئی ایسا گھمبیر اور لاینحل مسئلہ بھی نہیں کہ ارباب بست و کشاد سے جس کی گتھیاں نہ سلجھ پا رہی ہوں۔ یہ کوئی ایسا قضیہ نہیں کہ جس کے حل کے لیے کوئی لمبے چوڑے پاپڑ بیلنے کی ضرورت ہو۔ نہ ہی یہ کوئی ایسا معما ہے کہ جس کا حل تلاش کے باوجود نہ مل رہا ہو۔ نہ ہی یہ کوئی ایسا معاملہ ہے کہ جس کی پیش بندی کے طور پر پہلے عوامی رائے کے لیے فضا ہموار کرنے کی نوبت آئے۔ نہ ہی یہ کوئی ایسا پیچیدہ مسئلہ ہے کہ جس کے لیے آئینی و دستوری موشگافیوں کی ضرورت ہو۔ نہ ہی یہ کوئی ایسا ایشو ہے جس کے عملی نفاذ سے صاحبان اقتدار و اختیار کی عوامی مقبولیت کا گراف نیچے آجائے گا۔ قطعاً ایسا نہیں ہے۔

اس مسئلے کا اگر تاریخی تناظر میں جائزہ لیا جائے تو قائداعظم سمیت دیگر بانیان پاکستان اور تحریک آزادی کے قائدین کے فرامین سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس وقت اس اہم معاشی مسئلے پر کتنے حساس تھے۔ قائداعظم سمیت جملہ قائدین کا موقف تھا کہ اس نوزائیدہ ملک کا معاشی نظام مبنی بر قرآن و سنت اور شریعت کے عین مطابق ہو گا۔

چنانچہ یکم جولائی 1948ء کو اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر شدید بیماری کی حالت میں زندگی کی آخری تقریر میں قائداعظم نے فرمایا:”I shall watch with keenness the work of your Research Organisation in evolving  banking practices compatible with Islamic Ideals of social and economic life۔”میں اس بینک کے تحقیقی شعبے کی کارکردگی کو ذاتی طور پر دیکھوں گا کہ وہ بینکنگ کے شعبے کو اسلام کے معاشی اور معاشرتی اصولوں کے مطابق مرتب کرے۔”

دسمبر 1969ء میں اس وقت کی اسلامی مشاورتی کونسل نے ڈھاکہ میں منعقدہ اجلاس میں بینک کے قرضوں، سیونگ سرٹیفکیٹ، پرائز بانڈ اور پوسٹل لائف انشورنس وغیرہ سب کو سود قرار دیا اور اس کے خاتمے کے اقدامات تجویز کیے۔ اس کے بعد 1973ءکے آئین میں جو کہ ملکی تاریخ کا سب سے جامع اور متفقہ دستور ہے، اس مسئلے پر قانون سازی کا عمل بھی مکمل ہو گیا اور سود کا خاتمہ حکومت کی ذمہ داری قرار دی گئی۔ لیکن انتہائی حساس نوعیت کا یہ مسئلہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے شور میں گم ہو گیا۔

پھر 14 نومبر 1991 کو وفاقی شرعی عدالت نے بینکوں کے سود کو حرام قرار دیتے ہوئے بینکوں کو اس کے خاتمے کے لیے چھ ماہ کی مہلت دی۔ جس سے قوم کو امید لگی لگی کہ اب اس لعنت سے چھٹکارا مل جائے گا لیکن اس وقت وفاق میں سیاست کی مصلحتوں اور تقاضوں میں جکڑی مسلم لیگ کی حکومت نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور یہ انتہائی حساس اور اہم معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ یہاں تک کہ 23 دسمبر 1999 کو وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے طویل غور و خوض کے بعد دوبارہ 1991 کے فیصلے کو بحال رکھا گیا، تو اس وقت کے حکمران کی خوے روشن خیالی کو یہ فیصلہ ناگوار گزرا، یوں یہ فیصلہ بھی ثمرآور ثابت نہ ہو سکا اور بالآخر ملک کے ممتاز اور مایہ ناز علمی شخصیت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کی محنت و کاوش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 24 جون 2002 کو سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ مسترد کر دیا۔

اب حال ہی میں 28 اپریل 2022 کو وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس جناب محمد نور خان مسکانزئی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حرمت سود کے بارے میں تاریخی اور تفصیلی فیصلہ دیا۔ اور آسانی کے ساتھ عملی نفاذ کے لیے حکومت کو 5 سال کی مہلت بھی دی۔ اب کی بار اس فیصلہ پر موجودہ حکومت کے ردعمل اور حکمت عملی آنے سے پہلے ہی چار بینکوں بشمول حکومتی نظام کا حصہ مانے جانے والے نیشنل بینک نے مذکورہ فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کر دی، جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے۔

اسلامی تشخص رکھنے والی جماعتوں، دینی فکر و خیال کی حامل تنظیموں، جید علماے کرام اور عوام نے مذکورہ چار بینکوں کے اس دین بیزار رویے پر سخت برہمی، بے چینی اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دو دن قبل ملک کے سب سے بڑے اور منظم دینی بورڈ وفاق المدارس نے بھی جہاں اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور نیک شگون قرار دیا، وہاں مذکورہ چار بینکوں کے اس اسلام بیزار رویے کے خلاف واضح ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

اس صورتحال میں ضروری ہے کہ:دینی سوچ رکھنے والی دینی و سیاسی جماعتیں روایتی کردار ادا کر کے حکومت وقت کے ذریعے اس فیصلے کے عملی نفاذ کے لئے بھرپور کوشش کریں اور اس کے لئے حالیہ موسم کافی حد تک سازگار ہے۔ جس طرح کہ کل ہی قومی اسمبلی کے اجلاس میں جمعیت علماے اسلام کے رکن قومی اسمبلی و وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسد محمود نے اپنے خطاب میں اسلامی نوعیت کے اس مسئلے پر مثبت پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں حکومتی اتحاد سے راہیں جدا کرنے کا عندیہ دیا ہے، جو کہ خوش آئند ہے۔

عوام کی طرف سے احتجاج ریکارڈ کروانے اور ردعمل کے طور پر ان چار بینکوں کا بائیکاٹ کیا جائے اور اپنی رقوم ان بینکوں سے نکال کر متبادل بینکوں میں منتقل کی جائے۔ اس طرح کا دباؤ بڑھا کر انہیں اپیل واپس لینے پر مجبور کرنے کے لئے تکنیکی طور پر جون کا مہینہ انتہائی اہم ہے۔سوشل میڈیا پر مذکورہ بینکوں کے اس اقدام کے خلاف اور اس فیصلے کے عملی نفاذ کے لئے مؤثر اور توانا آواز لگائی جائے، شاید کہ آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھ کر حکومت اور اس کے مہرے آمادۂ عمل ہو سکیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button