قلعہ دراوڑ کی دیواریں رنگ کیوں بدلتی ہیں؟
بہاولپور کے صحرائی علاقہ چولستان (روہی) میں سفر کرتے ہوئے آگے بڑھیں تو جاذبِ نظر اور دلکش ’’قلعہ دراوڑ‘‘ دور ہی سے آپ کو اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔ منفرد طرزِ تعمیر کے اس قلعے کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ اسے کس نے اور کب تعمیر کرایا تھا؟ ان سوالوںکے جواب میں تاریخ مختلف بیان پیش کرتی ہے۔
میر معصوم شاہ بکّھری نے اپنی کتاب ’’تاریخِ معصومی‘‘ میں اس قلعے کا نام ’’دلاور‘‘ لکھا ہے۔ میر علی شاہ قانع ٹھٹھوی کی کتاب ’’تحفۃ الکرام‘‘ میں بھی یہی نام (دلاور) ملتا ہے۔ دوسرے مغل بادشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں کے عہد کے مورخ آفتابچی جوہر نے اپنے کتاب ’’تذکرۃ الواقعات‘‘ میں اسے ’’دلاورہ‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ ’’اکبرنامہ‘‘ میں اس قلعے کا نام ’’دیوراول‘‘ تحریر ہے۔ انگریز مؤرخین جیرٹ نے اسے ’’ڈیواراول‘‘ اور کنگہم نے ’’ڈراول‘‘ لکھا ہے۔ محمد حفیظ الرحمن بہاولپوری کی تصنیف ’’تاجدارِ ریاستِ بہاولپور‘‘ میں اس قلعے کو ’’ڈیراور‘‘ کہا گیا ہے۔
ایک بیان کے مطابق ’’اس قلعے کو راول نامی ایک جوگی نے عملِ کیمیاگری کے ذریعے سے حاصل ہونے والی دولت سے تعمیر کرایا تھا۔ اسی جوگی کے نام سے منسوب ہو کر یہ قلعہ ’’ڈیر راول‘‘ یعنی ’’راول کی رہائش گاہ‘‘کہلایا اور پھر یہی نام مقامی لب و لہجے کی وجہ سے بدل کر ’’دراوڑ‘‘ بن گیا۔ ‘‘ جب کہ ایک اور بیان کے مطابق ’’یہ قلعہ راجہ داہر نے تعمیر کرایا تھا اور اس قلعے کا اصل نام ’’داہرور‘‘ تھا جو کثرتِ استعمال سے بگڑ کر ’’دراوڑ‘‘ ہو گیا۔‘‘
ایک اور روایت کے مطابق ’’یہ عظیم الشان دفاعی حصار ایک ہزار سال قبل جسلمیر (راجپوتانہ) کے ایک راجہ بجے رائو کے ولی عہد دیوراج نے اپنے ماموں رئیس بھوڑ سے مقابلہ کرنے کی غرض سے تعمیر کرایا تھا۔ ‘‘
ایک اور بیان کے مطابق ’’یہ قلعہ ریاست بہاولپور کے عباسی حکمران نواب مبارک خان نے اپنے دورِ حکومت (1749ء تا 1772ء) میںتعمیر کرایا تھا۔‘‘
مسلمانوں نے 712ء میں اسلام کے کمسن سپہ سالار محمد بن قاسم کی قیادت میں سندھ کے بعد ملتان اور پھر بہاولپور فتح کیا تھا۔ 1022ء میں محمود غزنوی دی گریٹ نے پورے پنجاب کو فتح کر کے سلطنتِ غزنہ (افغانستان) کا حصہ بنایا۔ 1175ء میں شہاب الدین محمد غوری نے پرتھوی راج کو شکست دے کر ریاست بہاولپور سمیت پورے پنجاب کو سلطنتِ غور (افغانستان) میں شامل کیا۔ 1370ء میں ایک عباسی امیر سلطان احمد دوم اپنے ساتھیوںکے ہمراہ مکران (بلوچستان) کے راستے سندھ میں داخل ہوا اور سندھ کے سرحدی گائوں ’’بنکا‘‘ کے حاکم رائے دہورنگ کو شکست دے کر اس گائوں پر قبضہ کر لیااور ایک چھوٹی سی عباسی ریاست بھی قائم کر لی۔
سترہویںصدی (17ویں) کے اختتام تک ان کی اولاد نے آس پاس کے کئی علاقوں کو فتح کر کے اپنی ریاست کا حصہ بنا لیا۔ 1727ء میں عباسی نواب صادق محمد خان اول نے باقاعدہ حکومت کا آغاز کیا اور 1733ء میں ’’قلعہ دراوڑ‘‘ فتح کر لیا جس کی وجہ سے ریاست دفاعی لحاظ سے بہت مضبوط ہو گئی۔ 1746ء میں نواب صادق محمد خان اول کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نواب بہاول خان اول نے ریاست کا انتظام سنبھالا اور صحرائے چولستان کے قریب ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جو ‘ ان کے نام سے منسوب ہو کر ’’بہاولپور ‘‘کہلایا۔
ریاست بہاولپور پر یکے بعد دیگرے عباسی خاندان کے بارہ افراد نے تقریباً 250سال حکومت کی۔ ریاست کا اپنا ڈاک کا نظام تھا ۔ ڈاک ٹکٹ اور پوسٹل اسٹیشنری بھی مقامی طور پر طبع کی جاتی تھی ۔’’پیپلز بینک‘‘ کے نام سے علیحدہ بینکاری کا نظام تھااور فوجی اور سول تمغے اور دیگر اعزازات بھی ریاست کی طرف سے جاری ہوتے تھے۔ 1833ء میں پانچویں عباسی حکمران نواب بہاول خان سوم نے حکومت برطانیہ سے ایک دوستانہ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت ریاست بہاولپور حکومت برطانیہ کے زیر انتظام آ گئی۔
1907ء میں ریاست کے بارہویں اور آخری حکمران نواب سر صادق محمد خان پنجم تخت نشین ہوئے۔ آپ نے 13اگست 1947ء کو قائد اعظم محمد علی جناح سے الحاق کا معاہدہ کیا جس کے تحت قیام پاکستان کے موقع پر بہاولپور ایک ریاست کی حیثیت سے پاکستان میں شامل کر لی گئی۔ تو آپ کو قلعہ ’’دراوڑ‘‘ کی طرف لیے چلتے ہیں۔ یہ قلعہ مٹی کے ایک مصنوعی ٹیلے پر تعمیر کیا گیا ہے۔ قلعے کا بڑا دروازہ لوہے اور لکڑی سے بنایا گیا ہے۔
دروازے کے اُوپر لوہے کی بڑی بڑی سلاخیں لگی ہوئی ہیں جن کی تنصیب ہاتھیوں کو قلعے کے اندر داخل ہونے سے روکنے کیلئے کی گئی تھی۔ قلعے میں داخلے کا ایک اور بڑا دروازہ شمالی سمت میں ہے جب کہ ایک دروازہ فصیل کے اندر بھی ہے۔ یہاں ایک بڑی سرنگ ہے جو محراب دار چھت سے شروع ہو کر مغرب کی سمت مڑتی چلی گئی ہے۔ دائیں طرف فوجیوں کی رہائش گاہیں ہیں اور بیرونی حالات و واقعات کا مشاہدہ کرنے کی غرض سے ایک مورچہ بھی بنایا گیا ہے۔
مغرب میں سڑک کے دائیں بائیں کمرے بنے ہوئے ہیں۔ دائیں طرف والے کمرے فوجیوں کے لیے اور بائیںطرف کے کمرے اسلحے کیلئے مخصوص تھے۔ جہاں سڑک ختم ہوتی ہے وہاں ایک میدان ہے جس میں ایک مسجد بنی ہوئی ہے۔ مسجد کے جنوب میں ایک خستہ عمارت ہے یہاں کبھی ریاست بہاولپور کے انتظامی دفاتر ہوا کرتے تھے۔ اس عمارت کے اندر ایک طویل برآمدہ ہے جس کے دونوں طرف کمرے بنے ہوئے ہیں۔ اس برآمدے کی جنوبی سمت ایک چکر دار راستہ ہے۔
خستہ حال کمرے کے پیچھے نواب آف بہاولپور کے اہلِ خانہ کی رہائش گاہیں تھیں۔ مغربی سمت میں مزید آگے بڑھیں تو آپ کو وہاں عباسی خاندان کے ملازمین کے کمرے نظر آئیں گے۔ ’’قلعہ دراوڑ‘‘ کی سیر کے دوران آپ کو اس کی حفاظت کے لیے بنائی گئی دو بڑی توپیں بھی دکھائی دیںگی۔ اس کے علاوہ کئی چھوٹی جسامت کی توپیں بھی نظر آئیںگی جن کو زنگ لگ چکا ہے۔ قلعے کے مشرقی حصے میں مجرموں کو سزا دینے کے لیے ٹکٹکی بھی بنی ہوئی ہے۔
قلعے کے باہر خندق کی طرف اینٹوں کی مدد سے مختلف ڈیزائنوں میں پشتے بنائے گئے ہیں جن کی بلندی تقریباً 40 فٹ ہے۔ قلعے کی اندرونی فصیل پر 8فٹ بلند خفیہ محراب دار مورچے بنے ہوئے ہیں جن میں چھپ کر دشمن پرتیروں یا آتشیں اسلحے سے جوابی حملہ کیا جاتا تھا۔ اس قلعے کی بیرونی فصیل تباہی کا ڈھیر بن چکی ہے لیکن اس کے آثار بتاتے ہیں کہ یہ فصیل بھی فنِ تعمیر کا شاہکار تھی جو بے توجہی کا شکار ہو کر برباد ہو گئی ۔ اس تباہ شدہ فصیل کے پاس ایک بازار بھی قائم کیا گیا تھا جس کی دکانیں اب کھنڈر بن چکی ہیں۔
قلعہ دراوڑ کے متعلق سرائیکی زبان کی ایک ضرب المثل بہت مشہور ہے ۔’’توں رنگ ایویں وٹے جیویں ڈراوڑ دا کوٹ وٹیندے!‘‘ اردو زبان میں اس کا مفہوم یہ ہے ’’تم اس طرح رنگ بدلتے ہو جیسے دراوڑ کا قلعہ رنگ بدلتا ہے۔‘‘ اس ضرب المثل کا پس منظر یہ ہے کہ چولستان (روہی) کی سرابی کیفیت کے تحت قلعے کی دیواریں دن میں سات آٹھ مرتبہ رنگ بدلتی ہیں۔