آبادی میں توازن کیلئے ریاست کی ذمہ داری
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، یہ اعداد و شمار 2017ء کی مردم شماری کے ہیں، گزرے پانچ برسوں میں مزید اضافہ ہو چکا ہو گا، جنوبی ایشیائی ممالک میں آبادی میں اضافے کی شرح میں پاکستان سب سے آگے ہے، سماجی ماہرین آبادی کو کئی مسائل کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں، مگر ریاستی سطح پر آبادی میں توازن کیلئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا، آبادی کے حوالے سے ریاست کے پروگرام صرف نمائش اور اشتہارات تک محدود ہیں، عوام میں شعور بیدا کرنے کی سنجیدہ و عملی کوشش نہیں کی گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو کام ریاستی سرپرستی میں نہ ہو وہ عوام میں مقبولیت حاصل نہیں کر سکتا ہے، بڑھتی آبادی اور اس سے جڑے مسائل کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آبادی میں توازن ریاست کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ خطے کے دیگر ممالک کو دیکھیں تو انہوں نے اپنے ہاں آبادی میں توازن کیلئے مؤثر پالیسی کے ذریعے عوام میں شعور پیدا کیا، اس ضمن میں ہمیں بنگلہ دیش سے سیکھنے کی ضرورت ہے، انہوں نے آج سے 30سال قبل نوے کی دہائی میں اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ بڑھتی آبادی ان کیلئے مسائل پیدا کرنے والی ہے سو انہوں نے آبادی میں توازن کیلئے ریاستی سطح پر جامع پالیسی تشکیل دی، خواتین کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی اور طویل سفر کے بعد بالآخر آبادی میں توازن قائم کر لیا ہے۔ بنگلہ دیش نے جس سفر کا آغاز آج سے تیس سال پہلے شروع کر دیا تھا ہم آج 2022ء میں بھی اس سفر کا آغاز نہیں کر پائے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ابھی تک ہم سمت کا تعین ہی نہیں کر پائے ہیں۔
پاکستانی عوام کی غالب اکثریت آبادی کو سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھتی ہے، دیہی اور پسماندہ علاقوں کی آبادی بہت تیزی کے ساتھ گروتھ کر رہی ہے، ریاستی سطح پر ہر شادی شدہ جوڑے کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ زیادہ بچے پیدا کر کے ان کی تعلیم اور تربیت کا خیال نہ رکھنے سے سو درجے بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے وسائل کو سامنے رکھ کر اتنے بچے پیدا کریں جن کی بہترین تعلیم اور تربیت کر سکیں تاکہ انہیں زندگی میں احساس محرومی کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ دیگر بچوں سے پیچھے رہ گئے ہیں، اس لئے آبادی اور وسائل میں توازن کیلئے ریاست کو ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی بڑھتی آبادی کے پیچھے بنیادی طور پر دو عوامل کار فرما ہیں ایک جہالت اور دوسرا مذہبی سوچ۔ دیہی آبادی کے لوگ اپنے وسائل اور بچوں کی تربیت سے بے نیاز ہو کر بچوں کی پلاننگ کرتے ہیں، بلکہ شادی کے بعد بچے پیدا کرنا ہی اصل مقصد سمجھ لیا جاتا ہے، گاؤں دیہاتوں میں مائیں ہر سال بچوں کو جنم دیتی ہیں، بعض لوگوں کے ہاں لڑکیوں کی پیدائش کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تو لڑکے کی خواہش میں بچوں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے۔
اسی طرح بعض دفعہ لڑکی کی خواہش میں زیادہ بچے پیدا کر دیئے جاتے ہیں، ایسے لوگوں کی کس طرح رہنمائی کی جائے، ریاست کو اس حوالے سوچنا چاہئے۔ جبکہ مذہبی سوچ کے حامل افراد اس حدیت سے اپنی مرضی کا مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں امت کے اضافے کی بات کی گئی ہے۔ ہماری دانست میں اس حدیث کو درست طریقے سے سمجھا نہیں گیا ہے ورنہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ مائیں بچے کو دو سال تک دودھ پلائیں، فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر بچہ کمزور ہو تو ڈھائی سال تک دودھ پلانے کی اجازت ہے، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جب تک ماں بچے کو دودھ پلائے گی تب تک بچے پیدا کرنے کا وقفہ کیا جائے گا۔ ہر سال بچہ پیدا ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ بچے کی پیدائش کے چند دن بعد عورت حاملہ ہو گئی، عورت کے حاملہ ہونے کی صورت میں پہلا بچہ ماں کے دودھ سے محروم رہ جائے گا جو اس کا بنیادی حق ہے اسی طرح بچے کی پیدائش کے فوری بعد عورت کے حاملہ ہونے کی وجہ سے وہ کمزوری کا شکار ہو جائے گی۔ اسی قرآنی حکم کی بنا پر بعض فقہاء نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ بچے کی پیدائش میں کم از کم ڈھائی سال کا وقفہ ضروری ہے لیکن کیا ہمارا مذہبی طبقہ اس پر عمل کرنے کیلئے تیار ہے؟
ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پسماندہ علاقوں اور مذہبی حلقوں میں آبادی سے متعلق پائی جانے والی سوچ کا پوری طرح ادراک کر کے علماء اور اہل دانش کی خدمات کی حاصل کرے، اسی طرح آبادی میں توازن کیلئے خصوصی بجٹ مختص کیا جائے، دیہی آبادی میں مقیم خواتین کو بتایا جائے کہ بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ ماں اور بچے کی صحت کیلئے بہت ضروری ہے جبکہ بچے کی پیدائش کے بعد اس کی پرورش اور تربیت کیلئے بھی وسائل کی ضرورت ہو گی جسے سامنے رکھ کر اگلے بچے کی منصوبہ بندی کی جانی چاہئے۔
بدقسمتی کی بات ہے ہمارے ہاں بچوں کی پیدائش میں وقفہ کیلئے سہولیات کا فقدان ہے، جن علاقوں میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے وہاں پر تو سرے سے سہولیات موجود ہی نہیں ہیں، جس کی وجہ سے ماں اور بچے کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں پر زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے، ان قیمتی جانوں کو محفوظ بنانا اور آبادی میں توازن قائم کرنا اسی صورت ممکن ہو پائے گا جب ریاست آبادی کے مسئلے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے گی۔