شادی میں ہمیشہ یکساں معیار کا خیال رکھیں

شادی ہمیشہ ہم خیال اور یکساں معیار رکھنے والے افراد کے مابین ہی کرنی چاہیے تاکہ نباہ کی بہترین صورت پیدا ہو سکے۔ اگر ایک خاندان انتہائی ماڈرن اور دوسرا مشرقی آداب و رسوم پر کاربند ہے اور ہیں اگرچہ دونوں ہی دولت مند مگر ان خاندانوں میں آپس میں شادی کی کامیابی کے امکانات بہت ہی کم ہوں گے کیونکہ رہنے سہنے کا انداز اور سوچنے کا انداز مختلف ہونے کی وجہ سے آپس میں ایڈجسٹمنٹ مشکل سے ہو پاتی ہے۔ اس کی مثال ہم آپ کو دو ایسے ہی مصروف خاندانوں کی یہاں پیش کرتے ہیں۔

لاہور کی ایک معزز صاحب حیثیت فیملی جو مشرقی رسم و رواج کی پابند اور اسلامی طرز معاشرت کی دلدادہ تھی۔ ان کے ایک لڑکے جو ایک بہت بڑے عہدے پر فائز تھے کی شادی کراچی کے ایک امیر کبیر خاندان کی لڑکی سے ہوئی جو انتہائی ماڈرن گھرانا تھا۔ شادی کی تقریب قابلِ دید تھی۔ ایک جشن کا سماں تھا۔ ایسا کہ راجے مہاراجے بھی رشک کریں۔ لڑکا بھی خوش تھا اور لڑکی بھی اور دونوں خوش مزاج تھے۔ دونوں انتہائی تعلیم یافتہ تھے، دونوں ہی عزت و وقار، شان و شوکت اور زندگی کی تمام سہولتوں کے حامل تھے۔

اگرچہ لڑکے والوں کے گھر کا ماحول خالصتاً مشرقی اور اسلامی انداز کا تھا لیکن چونکہ گھر میں کسی چیز کی کمی نہ تھی، نوکر چاکر تھے، حکومت میں عمل دخل تھا رکھ رکھاؤ تھا، بڑے بڑے خاندانوں سے میل ملاقات تھے، اس لیے لڑکا اور لڑکی زندگی کی پٹڑی پر بڑے خوشگوار انداز میں چلے جا رہے تھے۔ ایک دن کیا ہوا کہ لڑکی کے چند کلاس فیلو جو کراچی یونیورسٹی سے اس کے ساتھ ایم اے کر کے نکلے تھے، اتفاقاً لاہور آئے تو انہیں اپنی کلاس میٹ سے ملنے کا اشتیاق ہوا۔ وہ اس سے ملنے کے لیے کوٹھی پر پہنچے تو اس کا خاوند اپنے دفتر اور سسر اپنے کاروباری مراکز کا معائنہ کرنے گئے ہوئے تھے۔ لڑکی نے اپنی کلاس فیلوز کو ساس سے متعارف کروایا اور پھر اُن کو شہر کی سیر کروانے نکل گئی۔

جب خاوند دفتر سے واپس لوٹا تو اُس نے بیوی کے متعلق پوچھا اور ماں نے اُسے ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔ ماں بولی کہ نازنخرے کی پلی بڑھی اور لارڈ باپ کی بیٹی ہے میں تو اس لیے کچھ نہیں کہتی۔ بیٹا بھی احتراماً خاموش رہا۔ شام پھر رات ہوئی لیکن لڑکی نہ لوٹی، گھر والے انتظار کرتے کرتے تھک کے سو گئے۔ وہ رات گئے لوٹی تو سوائے نوکر کے سب سو چکے تھے، وہ بھی سو گئی۔

اگلی صبح جاگی تو دیکھاکہ اس کا خاوند ناشتہ کر چکا تھا اور دفتر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس نے خاوند سے بات کرنا چاہی تو وہ اس پر توجہ دیے بغیر گاڑی میں بیٹھ کر دفتر چلا گیا۔ ساس سسر نے بھی اس سے منہ پھیر لیا۔ پرانی مشرقی روایات کے حامل یہ افراد سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ایک نوبیاہتا لڑکی اپنے دوستوں کے ساتھ یوں رات گئے تک اکیلی گھومتی رہے اور ایک معزز گھرانے کے وقار کو مجروح کرے۔

اس کے غیر شریفانہ عمل کا احساس دلانے کیلئے یہ ناراضگی کافی تھی لیکن لڑکی نے اسے اپنی بے عزتی سمجھا اور یہ کہہ کر سوٹ کیس اٹھایا کہ ایسے گھر میں رہنے کا کیا فائدہ جہاں ہر شخص منہ سجائے بیٹھا ہو اور وہ کراچی چلی گئی۔ سسر بہو کو منانے کراچی بھی گئے لیکن بہو کے باپ نے بھی بیٹی کی طرفداری کرتے ہوئے کہا کہ اگر میری بیٹی دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے چلی گئی تھی تو کون سی قیامت آ گئی تھی۔ تم جیسے دقیانوسی خیالات رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ہمارا گزارا مشکل ہے۔ یوں دونوں خاندانوں میں تھوڑی تلخی کے بعد لڑکے لڑکی میں طلاق ہو گئی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button