پاکستان میں دوران زچگی شرح اموات زیادہ کیوں؟
تعلیم، صحت اور خاندانی منصوبہ بندی میں سرمایہ کاری اور لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت میں اضافہ کئے بغیر معاشی ترقی کا حصول ممکن نہیں
اسلام آباد میں دانشوروں، صحافیوں، ماہرین اقتصادیات اور پاپولیشن کونسل نے ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر مشاورتی نشست کا انعقاد کیا جس میں شرح آبادی کو پائیدار سطح تک لانے کے لئے بجٹ میں مناسب اضافے، ٹھوس اقدامات اور جامع منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
ملک گیر میڈیا مشاورتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے ورلڈ بنک کے سابق ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر حاند مختار نے کہا کہ پاکستان میں آبادی کے غیر معمولی اضافے کے اثرات براہ راست ملکی معیشت پر پڑ رہے ہیں اور معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ پاکستان میں 85 فیصد پیداواری فارمز پانچ ایکڑ سے بھی کم اراضی پر مشتمل ہیں جبکہ عالمی سطح پر غذا اور فصلوں کی مناسب پیداوار کیلئے کم از کم پانچ سے سات ایکڑ رقبے کے فارمز کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری زرعی پیداوار میں مسلسل کمی آر رہی ہے اور زر مبادلہ کا ایک بڑا حصہ برآمدات پر خرچ کیا جار رہا ہے۔ ڈاکٹر حاند نے بنگلہ دیش کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش نے خاندانی منصوبہ بندی سمیت صحت، تعلیم میں سرمایہ کاری اور افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت میں اضافہ کر کے معاشی ترقی کے اہداف حاصل کئے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں معاشی ترقی کے حصول کیلئے خاندانی منصوبہ بندی میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
مشاورتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے پاپولیشن کونسل کی پراجیکٹ ڈائریکٹر سامیہ علی شاہ نے بتایا کہ 1960 کی دہائی میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سنگاپور، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا، ملائیشیا اور پاکستان میں کل شرح بارآوری 6 تھی لیکن 1980 کی دہائی تک سنگاپور اور جنوبی کوریا نے بالترتیب 10 اور 16 سالوں میں اپنی شرح بارآوری نصف کر دی لیکن پاکستان کو شرح بارآوری 6.3 تک لانے کے لئے50 سال لگے۔ انہوں نے کہا کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے صحت، تعلیم، خوراک سمیت بنیادی ضروریات کی کمی کے سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
اگر صحت کے اعشاریوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ میں نو مولود بچوں کی شرح اموات کا تناسب ایک ہزار بچوں میں سے دس ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح ایک ہزار بچوں میں سے 62 ہے۔
اسی طرح پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں پر بوجہ حمل و زچگی خواتین کی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ تعلیم میدان میں دیکھا جائے تو سنگا پور، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ملائشیا میں شرح خواندگی 90 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح آج بھی 63 فیصد ہے اور 15 سال سے زائد عمر کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ناخواندہ ہے۔
متذکرہ ممالک میں اوسط عمر 75 سال جبکہ پاکستان میں 66 سال کے لگ بھگ ہے۔ سامیہ علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت کسی کی ملک کی ترقی کیلئے بے حد ضروری ہے۔
مشاورتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے پاپولیشن کونسل کے سینئر ڈائریکٹر پروگرامز، ڈاکٹر علی میر نے کہا کہ پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہے جنہیں پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے اور زرعی اراضی تیزی سے ختم ہو رہی ہیں جو کہ ایک تشویشناک امر ہے۔ مشاورتی نشست کے شرکاء نے بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں میڈیا کے کردار پر سیر حاصل بحث کی اور سفارش کی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بجٹ میں آبادی کی شرح میں آبادی پائیدار اضافے کے حصول کیلئے مناسب وسائل مختص کریں کیونکہ تعلیم اور صحت ایسے شعبے ہیں جن پر جی ڈی پی کا دو فیصد سے زائد خرچ نہیں کیا جاتا۔
اس کے علاوہ لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت کیلئے بھی خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایشیئن ٹائیگرز ممالک سنگاپور، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور جنوبی کوریا میں لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت 50 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح صرف 25 فیصد ہے۔
مشاورتی نشست میں بات کرت ہوئے صحافیوں اور ماہرین نے ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرامز میں بہتری کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ متعارف کروانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ مشاورتی نشست میں ملک بھر سے شریک میڈیا کے نمائندوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان کی قومی سلامتی انسانی ترقی سے منسوب ہے اور آبادی میں پائیدار اضافے کا ہدف حاصل کئے بغیر معاشی ترقی کے اہداف کا حصول ممکن نہیں۔