جان لیوا مذاق نے ماں بیٹے کی جان لے لی

ایک خاتون کا دل ہر وقت اپنے بیٹے ہی میں اٹکا رہتا تھا۔ وہ ہر وقت اُسی کے بارے میں سوچتی رہتی اور اُس کی سلامتی کے لیے دعائیں کرتی رہتی۔ جب سے اس کا بیٹا میڈیکل کی تعلیم کے لیے ایک مغربی ملک میں گیا تھا، تب سے تو اس کی ہر بات اپنے بیٹے سے شروع ہوتی اور بیٹے پر ہی ختم ہوتی۔ اس کی تو کنیت ہی بیٹے کے نام پرتھی۔ اُمِّ احمد۔ اب تو وہ بات بات پر یہی کہتی تھی، چلو! کوئی بات نہیں، یہ محض چند دن ہیں، گزر ہی جائیں گے۔ میرا بیٹا آنکھوں کا ماہر ڈاکٹر بن کر وطن لوٹے گا۔

ایک طرف ماں کا انتظار، بے چینی اور خوشی و غمی کے ملے جلے جذبات تھے، دوسری طرف ایک شیطان گھات لگائے بیٹھا تھا جو اس ماں کی زندگی میں زہر گھولنا چاہتا تھا۔ اللہ اللہ کر کے وہ دن قریب آ گئے جب اس کا لخت جگر ایک ماہر ڈاکٹر بن کر واپس آ رہا تھا۔ ایک صبح وہ فون کی گھنٹی سن کر بیدار ہوئی، اس نے سوچا احمد کا ہی فون ہو گا۔ وہ اپنی فلائٹ کے بارے میں بتانا چاہ رہا ہو گا۔ اس نے ریسور اُٹھایا۔ پوچھا: کون؟

دوسری طرف سے آنے والی آواز نے اس بے چاری خاتون پر بجلیاں گرا دیں۔ اُس ابلیسی ذہنیت والے شخص نے نہیں سوچا کہ وہ انتہائی محبت کرنے والی ماں کے جذبات سے کھیل رہا ہے۔ ایسی ماں جو دن رات اپنے بیٹے ہی کا نام لے لے کر جیتی ہے۔ اس انسان نما شیطان نے کہا: ’’محترمہ! میں آپ کے بیٹے احمد کا جاننے والا ہوں۔ احمد ایک ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہو گیا تھا۔ ہم نے اُسے ہسپتال منتقل کیا، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا اور اللہ کو پیارا ہو گیا۔ ‘‘ یہ سن کر والدہ کے ہاتھ سے ریسور گر گیا، وہ تیورا کر گری اور بے ہوش ہو گئی۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ عین ایسی وقت اس خاتون کا ایک قریبی عزیز اس کے گھر آ گیا۔

اُس نے دروازے پردستک دی، جب کئی بار دستک دینے کے باوجود کوئی آواز نہ سنائی دی تو وہ یہ سوچ کر گھر کے اندر داخل ہو گیا کہ اُمِّ احمد گھر میں اکیلی تھیں، کہیں وہ بیمار نہ ہوں۔ جب وہ اندر گیا تو اُس نے دیکھا کہ اُمِّ احمد تو فرش پربے ہوش پڑی ہیں، اس نے ایک ہمسائے کے ساتھ مل کر جلدی سے انہیں گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال پہنچایا۔ احمد کو اس حادثے کے بارے میں کسی نے نہیں بتایا۔ اُس نے بھی اپنی والدہ کو کچھ نہ بتایا۔ وہ اُسے سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ وہ اس تصور سے محظوظ ہو رہا تھا کہ اچانک اپنی والدہ کے پاس پہنچ جائے گا۔ وہ دیوانہ وار اس کی طرف لپکے گی۔ اسے اپنے ساتھ چمٹا لے گی اور بوسے دینا شروع کر دے گی۔

چند دنوں بعد احمد گھر پہنچا۔ وہ انتہائی تھکا ہوا تھا۔ اُسے یہ دیکھ کر انتہائی مایوسی ہوئی کہ والدہ گھر پر نہیں ہیں۔ عموماً اس کی والدہ گھر سے باہر نہیں جایا کرتی تھیں، خصوصاً اُن دنوں جب احمد کی آمد متوقع ہوتی تھی، وہ گھر سے باہر قدم بھی نہیں رکھتی تھیں۔ آج وہ کیسے چلی گئیں؟ احمد نے پڑوسیوں سے پوچھا۔ انہوں نے بتایا: آپ کی والدہ تو ہسپتال میں ہیں۔ یہ سن کر احمد کو شدید دھچکا لگا کہ والدہ بیمار ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں۔

وہ اپنی گاڑی میں بیٹھا اور انتہائی سرعت کے ساتھ ہسپتال روانہ ہو گیا۔ تیز رفتاری کی وجہ سے گاڑی ایک شدید حادثے کا شکار ہو گیا۔ لوگوں نے جلدی سے احمد کو ہسپتال منتقل کیا، لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لا کر اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔ پہلے پہل تو والدہ کو اس حادثے کے بارے میں کچھ نہ بتایا گیا، لیکن آخر کب تک اس حادثے کو چھپایا جا سکتا تھا!

والدہ کو اس واقعے کی تفصیلات بتا دی گئیں کہ کس طرح ایک سنگدل احمق نے فون پر آپ کے ساتھ مذاق کیا، جب آپ کا بیٹا احمد واپس آیا اور آپ کو نہ پا کر پڑوسیوں کے پاس گیا۔ پڑوسیوں نے اُسے بتایا کہ آپ تو ہسپتال میں ہیں۔ وہ انتہائی سرعت کے ساتھ ہسپتال آرہا تھا کہ حادثے کا شکار ہو گیا۔ اُمِّ احمد پھٹی پھٹی نظروں سے لوگوں کی طرف دیکھتی رہیں۔ پھر بے ہوش ہو کر گر پڑیں ۔ ڈاکٹر کو بلایا گیا، لیکن ان کی حرکت قلب بند ہو چکی تھی۔ وہ صدمہ نہیں سہ پائیں اور اپنے بیٹے احمد کے پاس جا پہنچیں۔ یوں ایک سنگدل شخص جو اپنی طرف سے مذاق کر رہا تھا، شاید اُس دن اپریل فول تھا، ماں بیٹے کی موت کا سبب بن گیا۔

قارئین کرام! اسلام ایسی تمام رسموں کی سختی سے مذمت کرتا ہے جن میں جھوٹ بولا جائے یا کسی کو نقصان پہنچایا جائے۔ اسلام تو مذاق میں بھی جھوٹ کو جائز قرار نہیں دیتا بلکہ وہ اپنے ماننے والوں سے یہ کہتا ہے کہ مزاح بھی ایسا ہونا چاہیے جو سچ اور واقعیت پر مبنی ہو۔ مغربی تہذیب کے دلدادہ نوجوان جو اپریل فول جیسے ایام مناتے ہیں، انہیں ایسے کاموں کے نقصانات کا ادراک ہونا چاہیے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button