فلاحی معاشرے کی تشکیل کے لئے راہنما اصول
"معاشرہ” عربی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں عربی سے ہی ماخوذ ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اردو میں اس لفظ کا استعمال سب سے پہلے ڈپٹی نذیر احمد نے 1906ء میں اپنی کتاب "الحقوق و الفرائض” میں کیا۔ عام مفہوم میں معاشرے سے مراد ہے: سماج، باہم مل جل کر رہنا اور ایک طرح کی جماعتی زندگی، جس میں ہر فرد کو رہنے سہنے اور اپنی ترقی اور بہبود کے لئے دوسروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایک معاشرے میں مختلف خیالات، مختلف مزاج اور مختلف شعبوں سے وابستہ افراد بستے ہیں نیز امیر و غریب، وضیع و شریف اور جوان و پیر ہر ایک معاشرے کا حصہ ہوتا ہے۔
معاشرہ کس طرح ایک پرسکون معاشرہ بنتا ہے؟ معاشرے میں رہنے کے وہ کون سے قرینے ہیں جن سے تعمیری معاشرہ تخلیق پاتا ہے؟ وہ کون سے عناصر ہیں جن کی بدولت پرامن معاشرہ وجود میں آتا ہے؟ وہ کون سے اجزائے ترکیبی ہیں جن سے ایک مثالی معاشرہ مرکب ہوتا ہے؟ کون سا معاشرہ مہذب و متمدن معاشرہ کہلانے کا مستحق ہے؟ ایک مثالی معاشرے کا خمیر کن چیزوں سے اٹھایا جاتا ہے؟ معاشرے کی تنظیم، اصلاح اور تعمیر کے لیے کون سے اقدامات اٹھانا ناگزیر ہیں؟
یہ ہیں وہ سوالات جن کے جوابات ڈھونڈنا ضروری ہے، تاکہ ان کی روشنی میں ہم اپنے معاشرے کو ایک فلاحی و اسلامی، امن و سکون، یکجہتی ویگانگت اور باہمی احترام و محبت کا حامل معاشرہ بنا سکیں۔ چونکہ اسلام وہ خوبصورت دین ہے جس نے جہاں ایمانیات اور عبادات پر زور دیا ہے، وہیں حسن معاشرت اور سماجی بہتری کی تاکید کی ہے۔ اسلام کے اولین عہد میں مسلمانوں کی سماجی برتری کی جاذبیت و کشش ہی تھی، جس کی بدولت دیگر اقوام کی نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئیں اور وہ اس سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہو نے پر مجبور ہوئے۔
چنانچہ سورۃ الحجرات میں ایک تعمیری، مثبت اور مثالی معاشرے کے خدوخال کی وضاحت اور چند رہنما اصول بیان کیے گئے ہیں۔ معاشرے کے سکون اور راحت کے لئے سب سے زیادہ جو چیز مضر ہے وہ غیر معتبر لوگوں کی طرف سے غیر مستند خبروں کا پھیلاؤ ہے۔ ایسی خبریں براہ راست پھیلائی جائیں یا سوشل میڈیا کے ذریعے، بہرحال معاشرے کا سکون غارت کرنے کے لیے یہ زہرِ قاتل کا درجہ رکھتی ہیں۔
معاشرے کے سکون کے لیے ایسی خبروں کا سدباب ضروری ہے اور یہ کام صرف اور صرف تحقیق و تفتیش سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ جب تک کوئی خبر یا بات پایۂ ثبوت کو نہ پہنچے، تب تک اس پر یقین اور اعتبار نہ کیا جائے اور نہ ہی اسے آگے نشر کیا جائے۔ موجودہ زمانے میں جس طرح عدم برداشت، غصہ اور لالچ جیسے اخلاق رذیلہ پروان چڑھ رہے ہیں، ایسے میں معاشرے کے افراد میں باہم کشیدگی، مسابقت اور بدمزگی پیدا ہو جانا ایک لازمی امر ہے۔
ایسی صورتحال میں ناراضی، لاتعلقی اور قطع رحمی جیسے نتائج بد برآمد ہونا معمول کی بات ہے۔ دیگر افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ مساوات اور برابری کی بنیاد پر دو فریقوں کے مابین صلح و صفائی کا اہتمام کریں۔ جب تک ہمارے ہاتھ اور زبان ظالم کے خلاف اور مظلوم کے حق میں استعمال نہیں ہوں گے، تب تک معاشرے میں عدل و انصاف قائم نہیں ہو سکتا اور جو معاشرہ عدل و انصاف سے عاری ہوتا ہے، اس میں سکون اور امن لانا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔
لہذا زبان و ہاتھ اور قول و فعل ہر دو اعتبار سے عادلانہ اور منصفانہ رویوں کو فروغ دیا جائے۔ غیر جانبداری اور قوم و قبیلہ کے تعصب پر مبنی بے جا حمایت کی بجائے حق و انصاف کے دامن سے وابستہ رہنا ہی قرین انصاف ہے۔ عیوب سے پاک، نقائص سے مبرا اور کمزوریوں سے منزہ ذات صرف اور صرف اللہ تعالی کی ہے۔ عام انسانوں میں کوئی نہ کوئی خلقی نقص اور بشری کمزوری ہوتی ہے۔ اپنے گریبان میں جھانکنے اور خود احتسابی کرنے کی بجائے دوسروں کے خلقی نقائص اور بشری کمزوریوں کی بنیاد پر مذاق اڑانا ایک احمقانہ عمل اور عاقبت نا اندیشی کی بدترین مثال ہے۔ ہر انسان کو خود سے بہتر اور فائق سمجھنا ہی وسعت ظرفی اور کشادہ دلی کا مظہر ہے۔
لہذا معاشرے میں خوشگواری کے فروغ کے لیے دوسروں کا مذاق اڑانے سے اجتناب کرنا چاہیے اور نہ ہی کسی کو نسب، خاندان، قبیلے، پیشے اور غربت کا طعنہ دیا جائے۔ خصوصاً ہمارے ہاں کے بے لگام سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی برپا ہے، یہ ہمارے معاشرے کی ایک مکروہ تصویر پیش کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں ایک اور معاشرتی برائی تیزی سے پھیل رہی ہے، وہ یہ کہ جس شخص سے ذاتی، سیاسی اور مذہبی نوعیت کا اختلاف ہوجائے، اسے مختلف برے نام اور برے القاب سے پکارنا۔ یہ اتنی عام بیماری بن چکی ہے کہ اس کی قباحت اور شناعت کا احساس بھی ہمارے دلوں سے محو ہو چکا ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ خلقی نقائص اور بشری کمزوریاں ہر انسان کا خاصہ ہیں۔ ان کو بنیاد بنا کر کسی کو برے نام اور برے القاب سے یاد کرنا نا شائستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔