سخاوت و فیاضی کا خاندان سے کیا تعلق ہے؟
ہیثم بن عدی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: میں ایک بھائی کی ملاقات کی غرض سے اپنے علاقے سے نکلا۔ میرے پاس سواری کے لیے اونٹنی تھی جو اچانک بدک کر بھاگ گئی اور میں سارا دن اسے تلاش کرتا رہا، حتیٰ کہ شام ہو گئی اور بالآخر وہ مجھے مل گئی۔ میں نے گرد و پیش دیکھا تو اچانک وہاں کسی گنوار کا خیمہ تھا۔ میں اس کے پاس چلا گیا۔ خیمہ میں موجود عورت بولی: کون ہے؟ میں نے جواب دیا: مہمان۔ وہ بولی: مہمان یہاں کیا کر رہا ہے؟ جب کہ صحرا بہت وسیع ہے۔
پھر وہ کھڑی ہوئی، گندم کی پسائی کی، آٹا گوندھا اور روٹی بنا کر خود ہی کھانے لگی۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اس کا خاوند آ گیا، اس کے پاس دودھ تھا، اس نے سلام کہا، پھر بولا: کون آدمی ہے؟ میں نے کہا: مہمان ہوں۔ اس نے کہا: خوش آمدید، اللہ تجھے بقا دے، پھر خیمے میں گیا اور دودھ کا پیالہ بھر لایا، کہا: پی لو، میں نے خوشگوار انداز میں پیا۔ وہ بولا: میرا خیال ہے کہ تو نے کچھ نہیں کھایا اور نہ اس (میری بیوی) نے تجھے کچھ کھلایا پلایا ہے؟ میں نے کیا: اللہ کی قسم ایسا ہی ہے۔
وہ غضب ناک ہو کر خیمے میں گیا اور بیوی سے کہنے لگا: تجھ پر افسوس! تو نے کھایا اور مہمان کو بھوکا رکھا۔ وہ بولی: اور کیا کرتی؟ کیا اسے اپنا کھانا کھلا دیتی؟ اس کے خاوند میں مزید حدت پیدا ہو گئی، وہ درشت کلامی پر اُتر آیا، حتیٰ کہ بیوی کا سر پھوڑ دیا، پھر اس نے چھرا پکڑا اور میری اونٹنی کی طرف لپکا، اسے ذبح کر دیا، میں نے کہا : تو نے یہ کیا کیا، اللہ تجھے عافیت دے؟ وہ بولا: اللہ کی قسم! میرا مہمان بھوکا نہیں سو سکتا۔
پھر اس نے لکڑیاں اکٹھی کیں، آگ جلائی اور کباب بنانے لگا، مجھے کھلائے اور خود بھی کھائے، ساتھ اپنی بیوی کو دے رہا تھا اور اس کو کوس رہا تھا : اللہ تجھے نہ کھلائے، یہاں تک کہ صبح ہوئی تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ میں غم زدہ ہو کر بیٹھ گیا۔ جب دن خوب چڑھ آیا، تو وہ دکھائی دیا۔ اس کے ساتھ ایک اونٹ تھا۔ کہنے لگا: یہ تیری اونٹنی کی جگہ ہے ۔ پھر اس گوشت سے اور جو کچھ اس کے پاس تھا مجھے زادِ راہ دیا۔ میں اس کے پاس سے نکلا تو ایک اور خیمے کے پاس رات نے آن لیا۔
میں نے سلام کیا: خیمے والی عورت نے سلام کا جواب دیا اور بولی: کون ہے؟ میں نے کہا: مہمان ہوں۔ وہ کہنے لگی: خوش آمدید، اللہ آپ کو بقا سے نوازے اور عافیت عطا کرے۔ میں سواری سے اُترا، اس نے گندم کی پسائی کی، آٹا گوندھا اور پھر دودھ اور گھی سے روٹیاں تیار کیں۔ پھر روٹیاں میرے سامنے رکھیں اور کہا: کھا لیجئے۔
تھوڑی دیر بعد ایک گنوار، جو انتہائی بھیانک شکل و صورت کا مالک تھا، آیا اور سلام کہا تو عورت نے جواب دیا، اس نے پوچھا: یہ آدمی کون ہے؟ میں نے کہا: مہمان ہوں۔ وہ بولا: مہمان کا ہمارے پاس کیا کام؟ پھر خیمے کے اندر گیا اور کہا: میرا کھانا کہاں ہے؟ بیوی نے کہا: وہ میں نے مہمان کو کھلا دیا ہے۔ وہ بولا: کیا تو مہمان کو میرا کھانا کھلاتی ہے؟ سو ان دونوں میں سخت تلخ کلامی شروع ہو گئی، دریں اثنا آدمی نے لاٹھی اٹھائی اور اپنی بیوی کا سر زخمی کر دیا، میں ہنسنے لگا، وہ باہر نکلا اور پوچھا: ہنستے کیوں ہو؟ میں نے کہا: خیر ہی ہے۔ وہ بولا: اللہ کی قسم! تم ضرور بتلاؤ گے۔
تو میں نے اس عورت اور مرد کا قصہ سنایا، جن کے پاس میں ان سے پہلے مہمان رہ چکا تھا۔ وہ سن کر کہنے لگا: یہ عورت جو میری بیوی ہے، اس آدمی کی بہن ہے، وہ عورت جو اس آدمی کی اہلیہ ہے، وہ میری بہن ہے۔ میں نے بڑی حیرانگی سے رات گزاری اور واپس چلا آیا۔ اور سوچتا رہا ہے کہ سخاوت کا بھی عجیب معاملہ ہے ایک شخص جو خود سخی ہے تو اس کی بہن بھی سخی جبکہ دوسرا شخص جو بے مروت ہے تو اس کی بہن پر بھی کنجوسی کے اثرات ہیں۔