شادی سے پہلے کس قسم کی تحقیق ضروری ہے؟

ہمارے معاشرے میں شادی وہ حسین تصور ہے جو نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے ہر لڑکے اور لڑکی کے ذہن میں چپکے سے در آتاہے۔ یہ حسین تصور نوجوانوں کو بڑے خوبصورت خواب دکھاتا ہے۔ کچھ ان خوابوں کی حسین تعبیر بھی پا لیتے ہیں لیکن بعض جوڑوں کے ساتھ یہ المیہ بھی ہوتاہے جو انہیں یہ کہنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ
کھل گئی آنکھ تو تعبیر پر رونا آیا۔

ایسا اس وقت ہوتا ہے جب شادی بے جوڑ ہو جائے۔ جی ہاں! یعنی لڑکی اور لڑکا ایک دوسرے سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ یہ بے جوڑ رشتے جسمانی بھی ہو سکتے ہیں‘ذہنی بھی اور عمر کی بہت زیادہ کمی بیشی کے اعتبار سے بھی۔ اگر بے جوڑ شادی جسمانی ہو تو اس میں لوگوں کے نشترخیز جملے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ مثلاً بے حد لمبے اورچھوٹے قد کے میاں بیوی کو دیکھ کرلوگ عجیب عجیب آوازیں کستے ہیں یا موٹے شوہر اور دبلی بیوی کو بھی زمانے کی باتیں سننی پڑتی ہیں‘‘۔

اگر زندگی میں کسی کی بے جوڑ شادی ہو جائے تو یہ زندگی بھر کا عذاب ہوتا ہے۔ مثلاً شادی شدہ جوڑے کے درمیان عمروں کا بہت زیادہ تفاوت اور تعلیمی لحاظ بہت زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عام طور پردیکھا گیا ہے کہ تقریباً تمام بے جوڑشادیاں ’’ارینج‘‘ ہوتی ہیں یعنی والدین کی مرضی بلکہ زبردستی سے ہوتی ہیں جن کی وجوہ خاندان یا برادری سسٹم اور وٹہ سٹہ ہے جس میں لڑکے یا لڑکی پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے کہ وہ خاندان سے باہر شادی نہیں کر سکتے۔

دوسری بڑی وجہ ماؤں یا بہنوں کی جہالت ہے جس کی وجہ سے وہ یہ سمجھتی ہیں کہ کم عمرسے کم عمرلڑکی لائی جائے تاکہ اسے دبایا جا سکے یا اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا جا سکے۔
تیسری وجہ لڑکیوں کے والدین کی پسند اور ناپسند ہے جس کی بنا پر لڑکیوں کے لیے اچھے سے اچھے رشتے کی تلاش میں معقول رشتے تک ٹھکرا دیے جاتے ہیں اورعمر ڈھلنے پر کم تعلیم یافتہ یا بہت زیادہ عمر رسیدہ شخص سے بیٹی کی شادی کرنی پڑتی ہے۔ یوں بھی ہوتاہے کہ بہت اچھا رشتہ آنے پر لڑکے کی عمر نظرانداز کر دی جاتی ہے۔ غرض شادی کے وقت لڑکے کے گھر والے حسن بلکہ گورے رنگ کو اہمیت دیتے ہیں اورلڑکی کے گھر والے زیادہ تعلیم یافتہ اور اچھی تنخواہ اور بڑے عہدے والے لڑکے کو پسند کر تے ہیں‘ مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ ان بے جوڑ شادیوں کا انجام کیا ہو گا؟

بے جوڑ شادیوں سے شک‘ طلاق‘ نفرت ‘ احساس کمتری ‘ دوسری شادی اور جنسی بے راہ روی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا ہے۔ ذہنی دباؤ سے نفسیاتی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ ایسے لوگوں کے بچوں کی ذہنی صلاحیت دوسرے بچوں سے اکثر و بیشتر کم پائی جاتی ہے۔ بے جوڑ شادیوں میں مرکزی کردار ادا کرنے والے لوگ یعنی لڑکی اورلڑکے کے والدین بھی ذہنی کرب کا شکار رہتے ہیں۔ اس لیے خدارا شادی جیسے زندگی بھر کے معاملے کا فیصلہ جذبات سے نہیں عقل سے کیا کریں۔

برادری سسٹم‘ وٹے سٹے‘ جہیز کے لالچ اور جھوٹی انا پر اپنے بچوں کی زندگیاں قربان نہ کریں۔ اس کے بد اثرات یہیں تک نہیں رہتے بلکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس کی سزا بھگتتی ہیں۔ اس لیے بے جوڑ شادیوں سے نسلیں تباہ نہ کریں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button