بیکٹیریا، انسان کا سب سے خطرناک دشمن
شیر کے ڈراؤنے چہرے کو دیکھ کر مشکل سے کوئی آدمی یقین کرے گا کہ اس پھاڑ کھانے والے درندے سے بھی زیادہ خطرنک دشمن کوئی انسان کے لیے ہو سکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان کا سب زیادہ خطرنک دشمن شیر یا بھیڑیا نہیں۔ اس کے لیے سب سے خطرناک دشمن وہ بیکٹیریا ہیں جو اتنے چھوٹے ہیں کہ خالی آنکھ سے نظر نہیں آتے۔ یہ بیکٹیریا تیزی سے اپنی نسل بڑھاتے ہیں کہ موافق حالات میں صرف دس گھنٹوں کے اندر ایک کیڑا اپنی نسل کے دس ہزار جاندار پیدا کر لیتا ہے۔
شیر یا بھیڑیا کہیں کسی ایک آدمی کو پھاڑتے ہوں گے مگر بیکٹیریا کی زد میں ہر آدمی ہر وقت ہوتا ہے۔
بیکٹیریا کی ہزاروں قسمیں ہیں۔ ہماری خوش قسمتی سے ان کی 99فیصد تعداد یا تو بے ضرر ہے یا ہمارے لیے مفید ہے مگر ایک فیصد تعداد جو مضر ہے وہ بھی اتنی خطرناک ہے کہ آن کی آن میں آدمی کی جان لے سکتی ہے۔ میڈیکل سائنس کے مطابق تمام مہلک بیماریاں انہی بیکٹیریا کی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔ بیکٹیریا انتہائی چھوٹے ہونے کی وجہ سے ایسے راستوں سے انسان کے اندر داخل ہو جاتے ہیں جن کا روکنا عام طور پر آدمی کے بس میں نہیں ہوتا۔
لوگ عام طور پر بڑے بڑے حادثات کو جانتے ہیں اور ان کو اپنی تباہی کا سبب سمجھتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ’’چھوٹے چھوٹے دشمن‘‘ ہم کو اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں، جتنا کہ بڑے بڑے دشمن۔ اور ہماری سب سے زیادہ خطرناک دشمن خود ہماری اپنی چھوٹی چھوٹی کوتاہیاں ہیں جو ہم کو محسوس نہیں ہوتیں مگر وہ ہماری زندگی کو برباد کر کے رکھ دیتی ہیں۔
مثلاً ہر شخص کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے روزانہ اوقات کا ایک حصہ بغیر استعمال کیے ہوئے گزار دیتا ہے۔ ہر شخص روزانہ غیر ضروری مدوں میں کچھ نہ کچھ رقم خرچ کرتا رہتا ہے۔ یہ وقت اور سرمایہ ایک دن کے لحاظ سے تو بہت تھوڑا نظر آتا ہے۔ چند گھنٹے یا چند روپے لیکن اگر پورے سال اور آدمی کی پوری عمر کو ملا کر دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ ہر شخص تقریباً اپنی نصف عمر اور اپنی نصف کمائی کو بے نتیجہ چیزوں میں برباد کر رہا ہے۔ اس بربادی کو اگر پوری قوم پر پھیلائیں تو یہ نقصان اتنا زیادہ بڑھ جائے گا کہ اس کا شمار بھی نا ممکن ہو۔