امریکی خلاباز ہولناک آواز سے کیسے محفوظ رہے؟
جولائی 1969ء میں امریکہ نے انسان بردار راکٹ چاند کی طرف بھیجا تھا۔ اس راکٹ کی خبروں میں بتایا گیا تھا کہ جب اس کی پہلی منزل کا انجن داغا گیا تو ایک بے حد ہولناک آواز پیدا ہوئی۔ یہ آواز اتنی تیز تھی کہ اس نے ایک سو میل کے رقبہ کو ہلا دیا۔ مگر جو خلا باز اس راکٹ میں سفر کر رہے تھے ان کو صرف دس سیکنڈ بعد یہ آواز سنائی دینا بند ہو گئی۔ وہ کان کے پردے پھاڑ دینے والی اس آواز سے محفوظ ہو کر اپنے سفر پر رواں ہو گئے۔
ایسا کیوں کر ہوا۔ اس کی وجہ انسان بردار راکٹ کی تیز رفتاری تھی۔ آواز معمولاً ہوا کے ذریعے پھیلتی ہے اس لیے اس کی رفتار سات سو میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ جب کہ راکٹ کی رفتار 25ہزار میل فی گھنٹہ سے بھی زیادہ تھی۔ رفتار کے اس فرق کی وجہ سے ایسا ہوا کہ صرف دس سیکنڈ بعد راکٹ اس خوفناک آواز کی زد سے باہر جاچکا تھا۔ آواز سات سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی اور راکٹ 25ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگ رہا تھا۔
اس فرق کا نتیجہ یہ ہواکہ ابتدائی لمحات کے بعد راکٹ کے پھٹنے کی آواز خلابازوں کے کنٹرول روم تک پہنچنا بند ہو گئی۔ خلاباز بھیانک آواز پیدا کرنے والی سواری میں سفر کر رہے تھے، مگر اس کے باوجود اس کی بھیانک آواز سے ان کے کان محفوظ تھے۔
اسی طرح ہر شخص اور ہر قوم کی زندگی میں یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ ناخوشگوار حالات اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ اب اگر وہ اپنی جدوجہد کی رفتار اتنی تیز کر لے کہ ناخوشگوار حالات کے مقابلہ میں اس کی رفتار بڑھ جائے تو وہ ان کی زد سے نکل جائے گا، وہ ان سے اسی طرح محفوظ ہو جائے گا جس طرح خلا باز اپنے راکٹ کے پھٹنے کی طوفانی آواز سے محفوظ ہو گئے۔
زندگی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ایک شخص یا قوم کے لیے ممکن ہے کہ یہاں بھی وہ ایسا سفر کر سکے جس میں وہ دوسروں کی زد سے محفوظ ہو۔ اگر دوسرے جلد بازی کی رفتار سے چل رہے ہوں اور آپ صبر کی رفتار سے چلنے لگیں۔ دوسرے منفی کارروائیوں کی بنیاد پر اُٹھے ہوں اور آپ مثبت عمل کا طریقہ اختیار کریں۔ دوسرے مادی طاقت کے سہارے بڑھیں اور آپ اخلاقی طاقت کے زور پر کھڑے ہوں۔
دوسرے ظاہری انسان سے ٹکرا رہے ہوں اور آپ اندرونی انسان کو اپنا نشانہ بنائیں تو یقینی بات ہے کہ آپ لوگوں کی زد سے اسی طرح باہر ہوں گے جس طرح راکٹ سوار اپنے راکٹ کی بھیانک آواز سے۔