سودی نظام کی بین الاقوامی سطح پر تباہ کاریاں

مال کے نعمت اور ضرورت ہونے کے باوجود، خالق کائنات اور تمام نبیوں کے سردار حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کو متعدد مرتبہ فتنہ، دھوکے کا سامان اور محض دنیاوی زینت کی چیز قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مال و دولت کے حصول کے لیے کوئی کوشش ہی نہ کریں، کیوں کہ حلال رزق کا طلب کرنا اور اس سے بچوں کی تربیت کرنا خود دین ہے،بلکہ مقصد یہ ہے کہ اللہ کے خوف کے ساتھ زندگی گزاریں اور اخروی زندگی کی کامیابی کو ہر حال میں ترجیح دیں۔ کہیں کوئی معاملہ درپیش ہو تو اخروی زندگی کو داوٴ پر لگانے کے بجائے فانی دنیاوی زندگی کے عارضی مقاصد کو نظر انداز کردیں، نیز شک و شبہ والے امور سے بچیں۔

اس وقت دنیا میں حصول مال کے لیے ایسی دوڑ شروع ہو گئی ہے کہ اکثر لوگ اس کا بھی اہتمام نہیں کرتے کہ مال حلال وسائل سے آرہا ہے یا حرام وسائل سے، بلکہ کچھ لوگوں نے تو اب حرام وسائل کو مختلف نام دے کر اپنے لیے جائز سمجھنا شروع کردیا ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مشتبہ چیزوں سے بھی بچنے کا حکم دیا ہے، اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ صرف حلال وسائل پر ہی اکتفاء کرے، جیسا کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو، کیوں کہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی)

نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ حرام کھانے، پینے اور حرام پہننے والوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں۔ (مسلم)

ہمارے معاشرہ میں جو بڑے بڑے گناہ عام ہوتے جارہے ہیں، ان میں سے ایک بڑا خطرناک اور انسان کو ہلاک کرنے والا گناہ سود ہے۔

وزن کی جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی چیزیں اور روپے وغیرہ میں دو آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو عوض کچھ زائد دینا پڑتا ہو ربا اور سود کہلاتا ہے جس کو انگریزی میں Interest یا Usuryکہتے ہیں۔ جس وقت قرآنِ کریم نے سود کو حرام قرار دیا اس وقت عربوں میں سودکا لین دین متعارف اور مشہور تھا، اور اُس وقت سود اُسے کہا جاتا تھا کہ کسی شخص کو زیادہ رقم کے مطالبہ کے ساتھ قرض دیا جائے خواہ لینے والا اپنے ذاتی اخراجات کے لیے قرض لے رہا ہو، یا پھر تجارت کی غرض سے، نیز وہ Simple Interestہو یا Compound Interest، یعنی صرف ایک مرتبہ کا سود ہو یا سود پر سود۔ مثلاً زید نے بکر کو ایک ماہ کے لیے 100 روپے بطور قرض اس شرط پر دیے کہ وہ 110 روپے واپس کرے، تو یہ سود ہے، البتہ قرض لینے والا اپنی خوشی سے قرض کی واپسی کے وقت اصل رقم سے کچھ زائد رقم دینا چاہے تو یہ جائز ہی نہیں، بلکہ ایسا کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے، لیکن پہلے سے زائد رقم کی واپسی کا کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو۔ بینک میں جمع شدہ رقم پر پہلے سے متعین شرح پر بینک جو اضافی رقم دیتا ہے، وہ بھی سود ہے۔

سود کی حرمت: سود کی حرمت قرآن وحدیث سے واضح طور پر ثابت ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ (اللہ تعالیٰ نے خریدوفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (سورہ البقرہ ۲۷۶) اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ جب سود کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو لوگوں کا دوسروں پر جو کچھ بھی سود کا بقایا تھا، اس کو بھی لینے سے منع فرمادیاگیا: (سورہ البقرہ ۲۷۸) یعنی سود کا بقایا بھی چھوڑدو اگر تم ایمان والے ہو۔

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے اور دینے والے، سودی حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔ سود لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کے الفاظ حدیث کی ہر مشہور و معروف کتاب میں موجود ہیں۔ (مسلم، ترمذی، ابوداود، نسائی)

آج دنیا کی بڑی بڑی اقتصادی شخصیات کے مطابق پوری دنیا میں موجودہ سودی نظام سے صرف اور صرف سرمایہ کاروں کو ہی فائدہ پہنچتا ہے، نیز اس میں بے شمار خرابیاں ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا اب اسلامی نظام کی طرف مائل ہورہی ہے۔ یورپ اور مغرب سود کی تباہ کاریاں سمجھ چکے ہیں وہ اب اسلامی بینکاری کو تیزی سے فروغ دے رہے ہیں۔ عالمی بینک اور اس کے تمام ذیلی ادارے سود کی مرہون منت ہیں اور سود پر چل رہے ہیں سود پر دنیا بھر کے ممالک کو قرض اور مختلف اسکیموں کے ذریعے جال میں پھنسا لیتے ہیں اور اُن ممالک میں اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں ایک طرف سودی نظام کی وجہ سے دولت سمٹ کر ان امیر ممالک کے پاس جا رہی ہے، جنہوں نے یہ ادارے اپنے منشا کے لیے قائم کیے دوسری طرف غریب ممالک کمزور ہوتے جا رہے ہیں جس کی واضح مثال وطن عزیز پاکستان کے علاوہ سری لنکا ہے یقیناً سود کی تباہ کاریاں معاشرے میں بگاڑ سے بھی بڑھ کر ملکوں اور قوموں کی تباہی تک پہنچی ہوئی ہیں۔

حال ہی میں سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کی خبر اخبارات کی زینت بنی۔ سری لنکا جس کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے غیر ملکی قرضوں اور ان پر بڑھتے ہوئے سود کے بوجھ تلے بری طرح دب چکا تھا۔ ان قرضوں اور سود کی ادائیگی ناممکن ہو گئی تو سری لنکا کی معیشت تباہ ہو گئی یاد رہے۔ تمام کاروبار دنیا جس سے لوگ رزق اور دیگر ضروریات زندگی حاصل کرتے ہیں روپیہ سے چلتا ہے (جس کے مختلف ممالک میں مختلف نام ہیں مثلاً انگلینڈ میں پاؤنڈ، امریکہ میں ڈالر وغیرہ مگر عام فہمی کے لئے ہم اسے روپیہ ہی کہیں گے) ۔ روپیہ ہی میں تمام اشیاء اور خدمات کی قیمتیں مقرر ہوتی ہیں جن کا انحصار اشیاء اور خدمات کی طلب و رسد پر ہے۔

جب رسد بڑھتی ہے تو قیمتیں کم ہو جاتی ہیں اور جب رسد کم ہوتی ہے تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اسی طرح جب آبادی بڑھتی ہے اور رسد نہیں بڑھتی تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تو یا تو قیمتوں کو پچھلی سطح پر لانے کے لئے رسد (پیداوار) بڑھانی پڑتی ہے اور لوگوں کو مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے زیادہ روپیہ (تنخواہ محنت کا معاوضہ وغیرہ بڑھا کر) مہیا کرنا ہوتا ہے اور یہ کام حکومت کا ہے کہ ضروریات زندگی کی طلب و رسد کے مطابق لوگوں کی تنخواہ، محنت کا معاوضہ مقرر کرے مگر یہ کرنا اسی وقت آسان ہے جب خود روپے کی قیمت میں کوئی کمی بیشی نہ کی جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب روپیہ (کرنسی) کا کنٹرول خود حکومت کے ہاتھ میں رہے اور حکومت اس کی قیمت کو گھٹنے بڑھنے نہ دے۔ یہ تب ہی ممکن ہو گا جب ہر ملک میں بیرونی و اندرونی سودی مداخلت ختم ہو جائے گی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دنیا کی حکومتوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے ممالک میں سود کا خاتمہ کریں۔ اس کام میں پاکستان کو پہل کرنی چاہئے، کیوں کہ پاکستان کے ان اقدامات کی وجہ سے پوری دنیا اور خصوصاً اُمت مسلمہ کو اس راہ پر لانے کے لیے ایک واضح اور روشن مثال بن جائے گا۔ حال ہی میں وفاقی شرعی عدالت نے پانچ سال کا وقت دیتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سودی نظام ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اس عمل در آمد میں تمام قومی اداروں، حکومتی محکموں کے علاوہ سب اسٹیک ہولڈرز کو مکمل تعاون کا حکم بھی دیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاءاللہ تعالیٰ وہ دن جلد آئے گا جب حکومت مکمل سودی نظام کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کر دے گی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button