قرآن فہمی، مسلمانوں کی برتری کا نسخہ کیمیا
آپ جب بھی بازار سے بجلی پر چلنے والی کوئی کم قیمت مشین خریدتے ہیں تو اس کے ڈبے میں آپ کو ایک کتابچہ ضرور ملتا ہے، جس پر اس کو بہتر انداز سے چلانے کے لئے کچھ ہدایات اور دیرپا استعمال کے لیے طریقۂ کار درج ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ تنبیہات (cautious) لکھی ہوتی ہیں کہ اس مشین کو استعمال کرتے وقت ان امور سے اجتناب کرنا ہے۔
صارف سب سے پہلے اس گائیڈ کو پڑھتا ہے اور جب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ وہ گائیڈ پر لکھی تمام تنبیہات، ہدایات اور طریقۂ کار سمجھ چکا ہے، تب وہ اس مشین کو گائیڈ پر دی گئی ہدایات کی روشنی میں استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔
مذکورہ اصول کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ اللہ تعالی نے بھی انسان کو زندگی کی صورت میں ایک نہایت ہی بیش قیمت "مشین” عطا کی ہے اور اس "مشین” کو نفع بخش اور سود مند بنانے کے لیے ایک گائیڈ دیا ہے، جسے قرآن کہتے ہیں۔ جس طرح مشین کو دیرپا اور نفع بخش بنانے کے لیے ہدایات پر عمل ضروری ہے، اسی طرح زندگی کو کامیابی سے گزارنے کے لیے قرآنی ہدایات پر عمل ضروری ہے۔ جس طرح مادی مشین کو نقصان سے بچانے کے لیے تنبیہات کو سمجھنا اور ان کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے، اسی طرح سے زندگی کو نقصان سے بچانے کے لیے قرآنی تنبیہات کو سمجھنا اور ان کی منشا کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔
قرآن انسان کی ابدی کامیابی، سرمدی فوز و فلاح اور کونین کی سعادتوں کا سرچشمہ ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ قرآن دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہی وہ کتاب ہے جسے سب سے زیادہ بغیر سمجھے پڑھا جاتا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو زندوں کے لیے ایک ہدایت نامہ ہے لیکن لوگوں نے اسے مُردے بخشوانے کا ذریعہ بنا دیا۔ بیشک قرآن کی تلاوت مُردوں کے حق میں مفید اور باعث ثواب ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس کی غرض و غایت زندہ انسان کی اصلاح ہے۔
عصر حاضر میں مسلمانوں کو قرآن سے اعراض کرنے کے جہاں اور بہت سے نقصانات ہوئے، وہاں دوبڑے نقصانات ہوئے، جن کا ذکر موجودہ تناظر میں ضروری ہے۔ مسلمان اس وقت مادی وسائل اور معدنی ذخائر رکھنے کے باوجود باہمی اختلاف اور انتشار کے باعث دیگر دنیا کے لیے ایک تماشا بن کر رہ گئے ہیں۔ مسلمانوں کی آپس کی کشمکش نے مسلمانوں کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ عجم سے عرب تک مسلمان ذاتی اغراض و مفادات کی کشمکش میں باہم دست و گریباں ہیں، جو کمی اور کسر رہ گئی تھی، وہ مسلکی گروہ بندیوں نے پوری کر دی۔
ان اختلافات کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم بحثیت قوم قرآن سے دور ہو گئے ہیں اور عملی طور پر ہم نے قرآن سے اپنا رشتہ ناتا توڑ لیا ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اقوام عالم میں ہماری بے توقیری بڑھتی ہی جا رہی ہے۔آزادی ہند کے مجاہد اول، مسلمانان برصغیر کے عظیم رہنما اور تحریک ریشمی رومال کے بانی حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے مالٹا کی جیل سے رہائی کے بعد پیرانہ سالی کے باوجود دارالعلوم دیوبند میں کھڑے ہوکر ایک بڑے اجتماع سے خطاب کے دوران کہا کہ "میں نے جیل میں مسلمانوں کی ناکامیوں پر بڑا غوروفکر اور سوچ بچار کی، جہاں تک میں نے مسلمانوں کی پستی اور زوال کے اسباب کا جائزہ لیا تو مجھے دو باتیں معلوم ہوئیں، قرآن سے دوری اور باہمی اختلافات۔
"قرآن سے لاتعلقی اور ناواقفی کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ مسلمانوں نے اپنی عملی زندگی میں خواہ انفرادی سطح کی ہو یا اجتماعی سطح کی، قرآن کو زیب طاقِ نسیاں کر دیا، حالانکہ قرآن ایک مکمل ضابطۂ حیات اور دستورالعمل ہے، جس میں زندگی کے ہر شعبے کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ سیاست، تجارت، عدالت، زراعت، تعلیم، دفاع، نکاح، طلاق، وراثت، جنگ، معاہدات، دیگر اقوام کے ساتھ تعلقات، حکومت، مالیات اور جرم و سزا، کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کی بابت قرآن میں واضح اور اساسی احکامات موجود نہ ہو۔
قرآن سے لاتعلقی اور ناواقفی کا یہ نقصان ہوا کہ مسلمان عملی میدان میں قرآن سے دور ہو گئے۔ قرآنی احکامات کو صرف نماز روزے تک محدود کر لیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم زندگی کے دیگر شعبوں میں قرآن سے لاتعلق ہو کر رہ گئے۔ چنانچہ آج پوری دنیا میں سوائے چند ایک ملکوں کے باقی تمام اسلامی ممالک میں مذکورہ بالا شعبوں کو قرآنی احکامات اور اصولوں کے مطابق نہیں چلایا جارہا، بلکہ آج بھی اکثر اسلامی ممالک میں "غیروں” کے وضع کردہ قوانین رائج ہیں۔
لہذا موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے باہمی اختلافات کے خاتمے اور انفرادی اور اجتماعی سطح پر قرآنی اصولوں کے نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں قرآن میں تدبر اور فہم حاصل کرنا ہو گا۔ اس کے لئے سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر مسجد میں روزانہ کی بنیاد پر درس قرآن کا حلقہ قائم اور ترجمہ کی کلاس کا آغاز کیا جائے، کہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔