یوٹیلیٹی سٹورز پر 300 کلو گھی میں کتنی حقیقت؟
حکومت نے ہر یوٹیلیٹی سٹورز پر گھی کی قیمت 300 کلو کا اعلان کیا، مگر یہ سہولت فرنچائز پر موجود نہیں، مستفید ہونے کیلئے شناختی کارڈ اور موبائل نمبر کا اندراج کرانا ہو گا
حکومت اشیائے خور و نوش پر عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے دعوے تو کر رہی ہے لیکن عملاً ایسا کچھ بھی نہیں ہے، حکومتی دعویٰ صرف اعلانات تک ہی محدود ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ریلیف کے حکومتی دعوے تو صرف غریب کے کان خوش کرنے کے لئے ہوتے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ وزراء کی پریس کانفرنسوں میں جس فراخدلی اور جوش و جذبے کا ساتھ غریب لوگوں کا خیال کرنے اور مشکلات کے باوجود انہیں ریلیف فراہم کرنے کے جو اعلانات کئے جاتے ہیں، زمینی حقائق اس سے یکسر مختلف ہوتے ہیں ۔
اس کی تازہ مثال وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا یہ اعلان کیا ہے کہ تمام یوٹیلیٹی سٹورز پر آئل و گھی 300 روپے کلو دستیاب ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ حکومت گھی پر 3ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔ عوام ان کے اس اعلان پر خوش ہوئے اور اسے ایک مثبت اقدام قرار دیا گیا لیکن اب صورت حال ہے کہ جب آپ یوٹیلیٹی سٹورز پر پہنچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سہولت یوٹیلیٹی سٹورز کی فرنچائز پر تو دستیاب ہی نہیں ہے اور جن یوٹیلیٹی سٹوروں پر دستیاب ہے وہاں اے کیٹیگری اور بی کیٹیگری پر سہولت دستیاب نہیں ہے بلکہ سی کیٹیگری کے غیر معیاری آئل وگھی 300 روپے میں دستیاب ہیں جو لوگوں کی صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں۔
پھر ہرصارف کو یہ سہولت میسر نہیں، اگر آپ 300 روپے کلو گھی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پہلے مرحلے میں آپ کو شناختی کارڈ اور موبائل نمبر کا اندراج کروا کے رجسٹریشن کرانا ہوگی ۔ جس کے بعد تصدیق کی جائے گی اور پھر اوکے کا میسج آنے پر آپ 300 روپے فی کلو گھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
عوام میں سے کتنے ہیں جو ہاتھوں میں شناختی کارڈ تھامے لائنوں میں لگ کر پہلے مرحلے میں اندراج کرائیں گے اور پھر کنفرمیشن کا انتظار کریں گے، ٹارگٹڈ سبسڈی کو آسان بھی بنایا جا سکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا، عوام کو جو سبسڈی دی جاتی ہے وہ چند افراد کی کرپشن کی نظر ہو جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر پروجکٹ اپنے پیچھے کرپشن کا سکینڈل چھوڑ جاتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ جب تیل کی بڑھتی قیمتوں اور ٹیکسوں کا بوجھ بلاتفریق عام آدمی پر منتقل کیا جا رہا ہے تو اُس کی مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء خور و نوش پر عام آدمی کو صحیح معنوں میں ریلیف فراہم کرنے پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف عوام کا خون نچوڑا جا رہا ہے تو دوسری طرف ریلیف کے نام پر عوام سے مذاق بھی کیا جا رہا ہے، حکمرانوں کا یہ رویہ انتہائی افسوسناک ہے جس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔