لچک اور Adjustment کامیابی کے اہم ترین اصول

دکان دار کے یہاں ایک آدمی آیا۔ اس کو کپڑا خریدنا تھا۔ کپڑا اس نے پسند کر لیا مگر دام کے لیے تقریباً آدھ گھنٹہ تک تکرار ہوتی رہی۔ نہ دکاندار کم کرنے پر راضی ہوتاتھا نہ خریدار بڑھانے پر۔ آخر دکاندار نے اسی قیمت میں کپڑا دے دیا جس پر گاہک اصرار کر رہا تھا۔

ایک بزرگ اس وقت دکان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جب گاہک چلا گیا تو انہوں نے کہا: جب تمہیں گاہک کی لگائی ہوئی قیمت پر کپڑادینا تھا تو پہلے ہی دے دیا ہوتا۔ آخر اتنی دیر تک اس کا اور اپنا وقت کیوں ضائع کیا۔ ’’حضرت آپ سمجھے نہیں، دکاندار نے کہا میں اس کو پکا کر رہا تھا۔ اگر میں اس کی لگائی ہوئی قیمت پر فوراً سودا د ے دیتا تو وہ شبہ میں پڑ جاتا اور خریدے بغیر واپس چلا جاتااس کے علاوہ یہ بھی اندازہ کر رہا تھا کہ وہ کہاں تک جا سکتا ہے۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ اس سے آگے بڑھنے والا نہیں ہے تو میں نے اس کو کپڑا دے دیا۔‘‘

جب دو فریقوں کے درمیان مقابلہ ہو تو لازماً ایساہوتا ہے کہ ہر فریق اپنی اپنی مرضی کے مطابق معاملہ طے کرانا چاہتا ہے۔ ایسے موقع پربلاشبہ عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ اپنی مانگ پر اصرار کیا جائے مگراسی کے ساتھ عقل مندی ہی کا دوسرا لازمی تقاضا ہے کہ آدمی اپنی حدود کو جانے اور اس کے لیے تیار رہے کہ بالآخر کہاں پہنچ کر اس کو راضی ہو جانا ہے۔

اس اصول کو ایک لفظ میں توافق (Adjustment) کہہ سکتے ہیں۔ یہ توافق کا ایک راز ہے یہ موجودہ دنیا میں کامیابی کا اہم ترین اصول ہے۔ اس اصول کی اہمیت ذاتی معاملات کے لیے بھی ہے اور قومی معاملات کے لیے بھی۔

مغربی ممالک میں باہمی تعاون سے پروجیکٹ مکمل کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے جس سے ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے

اس اصول کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو جاننے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی جانے۔ موجودہ دنیا میں وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو دو طرفہ تقاضوں کی رعایت کر سکے۔ جو شخص یک طرفہ طور پر صرف اپنی خواہشوں کے پیچھے دوڑے اس کے لیے موجودہ دنیا میں ناکامی او ربربادی کے سوا کوئی اور چیز مقدر نہیں۔

بہت سے لوگ اپنی انا کی خاطر لچک کا مظاہرہ نہیں کرتے، بالعموم ایسے لوگوں پر اعتماد کم کیا جاتا ہے۔ ترقی کی منازل طے کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان دوسروں کو قبول کرے، کاروباری افراد کیلئے تو انا پرستی زہر قاتل کے مترادف ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button