کامیابی کے دو قرآنی اصول، صبر اور یقین
دنیا میں ہر انسان کے ذہن میں کوئی نہ کوئی ایسا خاکہ، تصور یا نقشہ ضرور ہوتا ہے جسے وہ اپنے طور پر زندگی کی کامیابی، منزل اور ہدف سے تعبیر کرتا ہے۔ کوئی منافع بخش کاروبار کو کامیابی گردانتا ہے تو کوئی اعلی منصب و عہدہ کو۔ کسی کی منزل کوئی پرکشش ملازمت ہے تو کسی کی منزل شہرت۔ کوئی سیاستدان بننا چاہتا ہے تو کوئی بیوروکریٹ۔ کوئی مصنف بننے کو اپنی زندگی کا ہدف قرار دیتا ہے تو کوئی پروفیسر بننے کو۔ کسی کے ہاں انجینئر بننا زندگی کا مقصود ہے تو کسی کے ہاں افواج پاکستان میں آفیسر بننا، کوئی ڈاکٹر بننے کو اپنی کامیابی خیال کرتا ہے تو کوئی تاجر بننے کو۔ کسی نے صحافی بننے کے خواب دیکھے ہوتے ہیں تو کسی نے لیڈر بننے کے۔
گو کہ مذکورہ بالا اور ان جیسی دیگر کامیابیاں مادہ پرستی کا شاخسانہ ہیں، تاہم پھر بھی اگر نیت درست، فکر سلامت اور ارادے نیک ہوں تو کامیابی کی ایسی خواہشیں پالنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ حوصلہ افزا ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کا ذہن جس شعبۂ زندگی اور میدان عمل کے زیادہ قریب ہو گا، وہ اسی شعبہ اور میدان میں نمایاں کامیابی چاہتا ہے۔ چنانچہ کسی کا ذہن تجارت کی طرف مائل ہوتا ہے تو کسی کا سیاست کی طرف۔ کسی کا انجینئرنگ کی طرف تو کسی کا تدریس کی طرف۔ کسی کا عہدہ و منصب کی طرف تو کسی کا وکالت کی طرف۔ کسی کا میڈیکل کی طرف تو کسی کا خطابت کی طرف۔ کسی کا تصنیف و تالیف کی طرف تو کسی کا تحقیق کی طرف۔ کسی کا میڈیا کی طرف تو کسی کا قانون کی طرف۔
غرض، ہر انسان نے "پسند اپنی اپنی” کے مطابق کامیابی کی خواہشوں اور تمناؤں کے تاج محل کا خاکہ بنا رکھا ہوتا ہے۔ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ متاع عزیز کے قیمتی اوقات اسی خاکے میں خیالی رنگ بھرتے گزر جاتے ہیں، لیکن زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے بالآخر یہ کامیابی ہمارے لیے "سراب” ثابت ہوتی ہے، تب ہمارے جیب و داماں میں مایوسی، ندامت اور حسرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
میرے سامنے اس وقت قرآن مجید کی سورہ سجدہ کھلی ہے، جس کی آیت نمبر 24 میں خاص بنی اسرائیل کے چنیدہ اور نمایاں لوگوں کی کامیابی کے اسباب بیان کیے گئے ہیں۔ چونکہ قرآن تا قیامت ایک زندہ صحیفہ اور راہنما ہے، اس لئے آیت کی جامعیت و ہمہ گیریت کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ اس کے عمومی اطلاق کے مطابق اس میں ہمہ قسم کامیابی کے دو اصول بیان کیے گئے ہیں۔
اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو فی زمانہ قرآن کے بیان کردہ یہ دو اصول جس طرح بنی اسرائیل کے ان کامیاب لوگوں کے لیے کارگر ثابت ہوئے، آج ہماری کامیابی کے لیے بھی کلید کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہی دو زینوں کے ذریعے عروج حاصل کیا جا سکتا ہے، کامیابی کے محل کی تعمیر کے لئے یہی دو بنیادیں ناگزیر ہیں، منزل پر پہنچنے کے لئے یہی دو سنگ میل عبور کرنا ہوں گے، یہی دو زادِ راہ ہیں جن کے بل پر کامیابی کی شاہراہ پر سفر کرنا ممکن ہے، ان دو اصولوں، بنیادوں اور زینوں کو رو بہ عمل لائے بغیر کامیابی کا حصول ناممکنات سے تعلق رکھتا ہے، ان سے چشم پوشی کر کے خواب و خیال کی دنیا میں تو زندہ رہا جا سکتا ہے، حقیقت کی دنیا میں نہیں۔
ذیل میں کامیابی کے ان دو قرانی اصولوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ صبر و استقلال کسی عزیز کی مرگ ناگہانی کی اطلاع پانے پر نوحہ و ماتم کی بجائے صدمے کے گھونٹ پینا ضرور صبر کا اعلی درجہ ہے، کسی قریبی رشتہ دار کے حادثے کا اچانک سن کر کر شور و واویلا کی بجائے تحمل اور برداشت سے کام لینا بھی صبر ہی ہے، لیکن صبر کے معنی و مصداق کا دائرہ اس سے زیادہ وسیع ہے۔
ایک خام دھات جب تک سنار اور صراف کی بھٹی اور پے در پے ضربوں کے صبر آزما مرحلہ سے نہیں گزرے گی، تب تک وہ ہار میں ڈھل کر کسی حسینہ کے گلے اور انگوٹھی بن کر کسی دلہن کے ہاتھ اور جھومر بن کر کسی دوشیزہ کے ماتھے کو رونق نہیں بخش سکتی۔ اسی طرح ایک پتھر جب تک کسی جوہری کی تراش خراش کے صبر آزما مرحلے سے نہیں گزرے گا، تب تک وہ کسی کشور کشا کے تاج کو آراستہ نہیں کر سکتا۔
ہمیں بھی عملی زندگی کی کامیابیوں کے حصول کے لیے بھٹیوں، ضربوں اور تراش خراش کے صبر آزما مرحلہ طے کرنا ہوں گے، کامیابی کے حصول کے لیے ہمیں خارزاروں سے گزرنا پڑے گا، ٹھوکریں کھانا پڑیں گی، تعلقات محدود کرنا ہوں گے، حصول منزل میں حائل بعض غیر ضروری دوستوں سے ناتا توڑنا ہو گا، اٹھتے اٹھتے گرنا اور گر گر کر اٹھنا ہوگا، ٹک ٹاک کی تماشا گاہوں کو خیرباد، فیس بک کی رنگینیوں کو خدا حافظ اور نفس کے رذیل جذبات کی تسکین کرتی آماجگاہوں کو الوداع کہنا ہو گا، طعنوں کے تیر اور ملامت کے نشتر سہنا ہوں گے، تعلقات محدود کرنا ہوں گے، قربانی، محنت اور لگن سے رشتہ و پیوند رکھنا ہوگا اور خونِ جگر سے گلِ لالہ کی حنا بندی کرنی ہو گی۔
ہمارے ہاں ایک طرفہ تماشہ ہے کہ کامیاب لوگوں کی تابناکی دکھا کر نئی نسل کی آنکھیں تو خیرہ کردی جاتی ہیں، مگر اس کے پس منظر میں ان کا جذبہ قربانی، جہد مسلسل اور رت جگوں کی لازوال داستان نہیں سنائی جاتیں۔ ہزاروں کامیاب لوگوں کی کامیابیوں کا تذکرہ تو کر دیا جاتا ہے، مگر ان کی کامیابیوں کے پس منظر میں ان کی بار بار کی ناکامیوں کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ ارفع مناصب تک رسائی کے لیے کن مرحلہ ہائے شوق سے گزرے یہ بتانے سے گریز کیا جاتا ہے۔
منزل کی طرف رواں ایک ریل گاڑی اپنے راستے میں دائیں بائیں دعوتِ نظارہ دیتے سینکڑوں پرفضا، صحت افزا اور دلفریب مقامات سے کترا کر آگے بڑھ جاتی ہے، کئی لہلہاتے کھیتوں، ہرے بھرے باغوں اور سر سبز کوہ و دمن سے آنکھ بچا کر ایک لمحہ ضائع کیے بغیر سوئے منزل رواں رہتی ہے اور انسان کو ایک خاموش پیغام دیتی ہے کہ شاہراہ زندگی میں کامیابی کے لیے منزل کی جستجو میں صبر و استقامت کے کچھ مرحلے طے کرنا ضروری ہیں۔
لہذا اگر آپ نے زندگی کے کسی میدان میں کامیابی کے خواب سجا رکھے ہیں تو صبر، برداشت، محنت، ریاضت، جہدمسلسل، قربانی، وقت کی قدر اور کام سے لگن جیسے صبر آزما مرحلہ طے کرنے ہوں گے۔ حصول منزل کا یقین کامیابی کے لیے جس جذبۂ قربانی اور جہدِ مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی ڈوری حصولِ منزل کے یقین سے بندھی ہے۔ ایک دو سالہ بچہ اپنے بھائیوں کو چلتا پھرتا، کھیلتا کودتا او دوڑتا دیکھ کر اپنے اندر یقین پیدا کر لیتا ہے کہ جلد وہ بھی اس قابل ہو جائے گا۔
یہ یقین ہی اس کے اندر کے انسان کو بار بار گر کر اٹھ کھڑے ہونے اور بار بار کھڑے ہو کر گرنے اور چوٹیں کھانے جیسے صبر آزما مرحلہ سے مقابلے کی ہمت دیتا ہے۔ چنانچہ وہی بچہ جو کل اپنے پاؤں کے سہارے کھڑا نہیں ہو سکتا تھا آج وہ میدانوں میں داد شجاعت وصول کر رہا ہوتا ہے۔ چڑیا کا ایک ننھا سا بچہ جس کے ابھی تک پوری طرح بال و پر بھی نہیں نکلے، منزل کا یقین اسے اڑ کر گرنے اور گر کر پھر اڑنے کا جذبہ دیتا ہے۔ اور یہی یقین ہے جو ممولے کو شہباز سے لڑنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ لہذا زندگی کے کسی بلند مقصد اور کامیابی کی کسی اعلٰی منزل کو اپنا ہدف مقرر کریں اور پھر حصولِ منزل کا یقین پیدا کرکے روزانہ خود احتسابی کریں اور دن بھر کی سرگرمیوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کریں کہ کیا آج میں اپنی مقرر کردہ منزل کے قریب ہوا ہوں؟
کیا کامیابی کی منزل کی مسافت میں کمی آئی ہے؟ کیا کامیابی کا سفر ایک قدم مزید کم ہوا ہے؟ کیا میں منزل کے قریب ہوا ہوں؟ اگر بنی اسرائیل کے کامیاب لوگوں نے یہ دو اصول اپنا کر نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے، تو ہمیں بھی انہی دو قرآنی اصولوں کو اپنانا ہوگا، اسی میں ہماری کامیابی منحصر ہے۔ صبر و استقلال اور کامیابی کا یقین۔