اب اسلام ہی ہماری پہلی ترجیح ہے، شیخ میثمی
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ’’خوجہ کمیونٹی‘‘ سے تعلق رکھنے والے شیخ شبیر حسن میثمی کی ’’سماج اردو‘‘ کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی کے موضوع پر مدبرانہ گفتگو
شبیر حسن میثمی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں خوجہ کمیونٹی کہا جاتا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ ان کے بزرگوں کا قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ رابطہ رہا، ان کے والد گرامی تک یہ فیملی تعلق برقرار رہا۔ آزادی کے بعد ان کی فیملی گجرات سے بمبئی اس پھر پاکستان آ کر کراچی میں آباد ہو گئی۔ شبیر حسن میثمی کے مطابق 70 ہزار کے قریب خوجہ برادری کے ممبرز پاکستان میں آباد ہیں جن میں زیادہ کراچی میں مقیم ہیں۔
خوجہ برادری کے لوگ بزنس سے منسلک ہیں، جنہوں نے حبیب بینک کے اشتراک سے ’’حبیب پبلک سکول‘‘ اور ’’غلامان عباس سکول‘‘ قائم کئے، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ کمیونٹی کے لوگ پڑھ لکھ جائیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان اسکولوں کے پڑھے ہوئے لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے، اس سے ہمیں افتخار محسوس ہوتا ہے کہ ہماری کمیونٹی کے لوگ پاکستان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
ہندو سے اسلام میں داخل ہونے کے بعد اب ہم اسلام کو ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں دینی شعائر کا بہت اہتمام ہے پردے کا بہت خیال رکھا جاتا ہے، داڑھی بھی شرعی حکم سمجھ کر رکھی جاتی ہے، نماز، روزے کی پابندی پر بہت سختی ہے، بچے بچیوں رشتہ طے کرتے وقت سب سے پہلے یہ پوچھا جاتا ہے کہ لڑکا نماز روزہ کا اہتمام کرتا ہے حالانکہ انہیں بخوبی معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود پوچھا جاتا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں دینی شعائر کا کس حد تک خیال رکھا جاتا ہے۔
شبیر حسن میثمی بتاتے ہیں کہ انہوں نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے، کیونکہ والد صاحب کی خواہش تھی کہ ان کا ایک بیٹا ڈاکٹر بنے سو اس مقصد کیلئے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی، پھرکچھ عرصہ کیلئے میرا دھیان کیمونسٹ سوشلزم کے طرف مائل ہونا شروع ہوا دین دار فیملی ہونے کے وجہ سے جلد واپسی ہو گئی، انہی دنوں مذہبی سکالر آیت اللہ ڈاکٹر مرتضیٰ نقوی سے ملاقات ہوئی، جو انتہائی سادہ طبیعت کے مالک انسان ہیں، ان کے ساتھ سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا، وہ میرے استاذ ہیں، کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے کہہ میرے لئے آنا آسان نہیں، بہت کے سوالات بہت اہم ہوتے ہیں مگر میں مختصر عرصے میں آتا ہوں اس لئے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتا۔
ان کی رہنمائی کے ساتھ 1982ء میں 20 سال تک علوم دینیہ حاصل کیا، حوض علمیکم جو پوری دنیا میں دینی علوم کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ تب تک بغداد کی نجف یونیورسٹی نہیں بنی تھی میں وہاں پڑھتا رہا۔ شبیر حسن میثمی کے مطابق پی ایچ کی ڈگری ہمارے ہاں درجہ اجتہاد کی ڈگری کو کہا جاتا ہے جسے حاصل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی مگر اللہ کے فضل و کرم سے میں نے وہ بھی حاصل کی، میں نے کچھ عرصہ تک اسلام اور سائنس پر کام کیا اور چھوڑ دیا، پھر میں نے میڈیکل اور اسلام پر کام کیا مگر اس میں بھی مزا نہیں آیا۔ اسی دوران ہمارے استاذ صاحب نے اسلام اور معیشت کی جانب رہنمائی کی جسے میں نے مزید دو سال تک پڑھا، سمجھا اور اجتہاد کیا، آج مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں بہت اچھے فیصلے کئے۔ اس بیس سالہ مذہبی تعلیم کے حصول کے بعد میں پاکستان آیا اور کراچی میں زہرہ اکیڈمی کی بنیاد ڈالی۔
مذہبی ہم آہنگی اور اتحاد بین المسلمین کے داعی شیخ شبیر حسن میثمی کہتے ہیں کہ پاکستان ہمارے بزرگوں کی محنت اور بہت مشکلات کے بعد ملا ہے اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آج مسلمان اسلام پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کر رہے ہیں، آج ہم اسلام کا نام لیتے ہیں مگر شادی بیاہ پر اسلام کی تعلیمات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں، ترجمہ: اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔ ہم پارٹ ٹائم مومن بننے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ اللہ کو قبول نہیں ہے۔ جب ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے تو پھر ہمیں اس کی روح کے مطابق اس پر عمل کرنا چاہئے۔ جس دن ہم اسلام کو اس کی روح کے مطابق اپنا لیں گے ہم مسائل سے نکل جائیں گے۔
اسلام دین فطرت ہے جس میں انتہا پسندی کا کوئی تصور نہیں ہے، جو مذہب دو افراد کے ملتے وقت سلامتی کا درس دیتا ہو وہ انتہا پسندی کی حوصلہ جوئی کیسے کر سکتا ہے۔ انتہا پسندی سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ تمام مسالک ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے پر کفر کے فتوے جاری کرنے سے گریز کیا جائے، اگر پہلے کچھ لوگوں نے کفر کے فتوے دیئے ہیں تو ان کا دوبارہ مطالعہ کیا جائے۔ اس بات کو قبول کیا جائے کہ جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی سمجھتا ہے تو اس پر کفر کا فتویٰ نہ لگایا جائے۔
اس کا بہترین حل یہ ہے کہ جمعہ کے خطبہ کے دوران نفرتیں پھیلانے سے گریز کیا جائے، منبر و محراب پر قرآن و حدیث، تعلیمات اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام کی تعلیمات تک محدود کر دیئے جائیں۔ منبر و محراب سے چونکہ ہر طرح کے شہری وابستہ ہوتے ہیں تو جمعہ کے خطباء پر ذمہ دای عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کی تعلیمی ضروریات کو سامنے رکھ کر گفتگو کریں، اسی طرح لوگوں کی تربیت کے پہلو کو مدنظر رکھنا بھی ائمہ و خطباء کی اخلاقی ذمہ داری ہے تاکہ اس کے نتیجے میں مثالی سماج تشکیل پا سکے۔
مذہبی ہم آہنگی کا فارمولہ بہت سادہ ہے کہ جس مسلک کے آپ پیرو کار ہیں اسے چھوڑیں نہیں اور دوسروں کے مسلک کو قبول کر لیں، جب ہم دوسروں کے مسلک پر اعتراض کرتے ہیں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ ایک طرح سے مقابلہ شروع ہو جاتا ہے، جس کا انجام نفرتوں کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ ماضی میں اس کی کئی نظیریں موجود ہیں ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اب ہم مذہبی انتہا پسندی سے نکل آئے ہیں، اس کا کریڈٹ مذہبی قیادت کو جاتا ہے، مذہبی ہم آہنگی کے پرچار کیلئے ضروری ہے کہ دوسروں کے مذہبی معاملات میں مداخلت سے اجتناب برتا جائے۔
مذہب میں تعلیم کی بڑی اہمیت ہے اس ضمن میں جدید اور مذہبی تعلیم کی تفریق کرنا درست نہیں ہے، اگر علماء متحد ہو جائیں اور اس بات کو جان لیں کہ ہم نے اس ملک کو اسلام کا قلعہ بنانا ہے تو اس مقصد کیلئے عدل کے راستے کو اپنانا ہو گا جب ہم عدل کے راستے پر چلیں گے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ کفر کے ساتھ نظام تو چل سکتا ہے ظلم کے ساتھ نظام نہیں چل سکتا۔ جدید تقاضوں سے واقفیت کے بغیر حالات کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہو گا بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ جدید علوم کی جتنی ضرورت آج ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔