گستاخ رویے پر عرب ممالک کا مثالی احتجاج
مودی جو چاہے کہو لیکن رسول اللہ کے خلاف نہیں، عرب ممالک میں ٹاپ ٹرینڈ بن گیا
پڑوسی ملک ہندوستان میں آج کی موجودہ برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پارٹی کی ترجمان نوپور شرما اور مودی کے قریبی ساتھی جانے والے نوین جندل نے ٹی وی پر رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف متنازعہ بیانات دئیے پھر تسلسل سے مختلف چینلز پر اسی موضوع پر تکرار بھی رہی، سب سے پہلے نوپور شرما کے بیان پر اترپردیش کے شہر کان پور میں ردعمل نظر آیا وہاں پر احتجاج ہوا اور اس احتجاج کے دوران تشدد ہوا جس میں متعدد پولیس اہل کاروں سمیت تقریباً 40 افراد زخمی ہو ئے۔
کان پور میں پولیس نے تین ایف آئی آر درج کی ہیں اور 36 افراد کو گرفتار کیا تھا۔ تاوقتیکہ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کی جانب سے اس پر خاموشی رہی، اور جب ریاستی سطح پر کسی ریاستی نمائندے کے ایسے عمل پر خاموشی رہے تو اسے حکومتی سرپرستی ہی سمجھا جاتا ہے۔
پوری دنیا میں آج یہ تقریبا طے کیا جا چکا ہے کہ کسی بھی مذاہب کے داخلی اعتقادات چاہے کسی دوسرے مذاہب کے لئے ناقابل قبول ہوں یا کسی بھی طور نا قابل سمجھ ہوں، انسانی اور بین المذاہب رواداری میں کسی بھی ریاستی فورم سے تنقید کی صورت قابل قبول نہیں ہوتے۔
ایسے معاملات میں درست و راست اقدام ہمیشہ فائدہ مند ہوتے ہیں، اس ہرزہ سرائی پر اہل عرب نے ایک ایسی قابل تقلید اور فکری سطح پر ہمارے لئے رہنمائی کے دروازے وا کئے ہیں کہ اگر ہم اس سے سبق لیں تو ہمیں اندازہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام ایسے تمام معاملات میں کیسے ردعمل دے سکتے ہیں۔
اہل عرب میں عمان کے مفتی اعظم نے اس عمل کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی، تمام عرب دنیا میں ٹویٹر پر #الا رسول اللہ یامودی ٹرینڈ کے تحت احتجاج جاری ہے، ترجمہ : مودی جو چاہے کہو لیکن رسول اللہ کے خلاف نہیں۔ قطر، امارات، کویت اور سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک نے اس مسلئے کو سرکاری اور سفارتی سطح پر اٹھایا، اور بھارت کو معافی مانگنے کا عندیہ دیا، یہ تمام عرب ممالک میں سے کوئی بھی ایٹمی طاقت نہیں ہے، لیکن انہوں نے ایک ایٹمی طاقت کو صرف چند گھنٹوں کے نوٹس پر معافی مانگنے پر مجبور کردیا، بھارت نے نہ صرف معافی مانگی بلکہ بھارت نے نوپور شرما کے توہین اسلام اور اشتعال انگیز بیان سے خود کو الگ کر لیا ہے اور ان کو پارٹی کی بنیادی رکنیت سے معطل کر دیا ہے۔
جو فیصلہ دو دن پہلے تک بھارت کے لئے قابل قبول بلکہ خاموش سطح پر زیر سرپرستی تھا، صرف چند گھنٹوں میں انتہائی غیر مقبول اور قابل مذمت بن گیا۔ کیونکہ عرب ممالک کے صرف سوشل میڈیا اور حکومتی شدید رد عمل نے انہیں یہ بتادیا کہ بھارت عرب ممالک میں اپنی مصنوعات کے بائیکاٹ کو قبول نہیں کر سکتا، بھارت کے کروڑوں افراد کا روزگار، ایک بہت بڑا زر مبادلہ، زر ترسیل، اور بھارت کے مقامی پروڈکٹس کی منڈی عرب ممالک ہیں۔
ان کی دنیا میں کامیاب معیشت کی کامیاب فیصلے کروا سکتی ہے۔ اس میں پاکستانیوں کے لئے واضح پیغام ہے کہ ہماری مذہبی اشرافیہ ایسے ہر مواقع پر جذباتی تقاریر کرکے، مقامی دھرنے، مقامی جلوس اور ہڑتالیں کرکے صرف پاکستان کی عوام کی زندگی تو دو بھر کر سکتی ہے، عوام کے جان و املاک کو نقصان پہنچا سکتی ہے، مگر تمام عرب ممالک میں سے کسی ایک فرد نے نہ اپنے ملک میں رہنے والے کسی ہندو یا ہندوستانی کو کوئی نقصان پہنچایا، نہ سڑکوں پر نکل کر عوام اور عام شہریوں کی جان املاک کو نقصان پہنچایا نہ کچھ توڑ پھوڑ کی نہ ہی فساد بپا کیا۔
مجھے شدید افسوس ہے کہ نوپور شرما اور نوین جندل جیسی شدت پسند سوچ کے حامل ہماری پارلیمنٹ کی ہر جماعت میں پارلیمان میں موجود ہیں جو گاہے گاہے ایسی ہی حرکات کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ملک میں سرکاری طور پر غیر مسلم قرار دئیے جانے والی اقلیت ہو،اہل تشیع برادری ہو یا ہندو ہو یا پھر عیسائی ہمارے ہاں بھی ان کے خلاف ایسی ہی نفرت دکھائی دیتی ہے۔ اور اکثر بیانات بھی سامنے آتے ہیں۔ جیسے پڑوسی ملک میں چند برسوں میں بی جے پی کی سربراہی میں ہندوستان جس تیزی سے شدت پسندی کی طرف گیا ہے۔
پاکستان میں یہ آگ تیسری سے چوتھی دہائی میں داخل ہوچکی ہے، ہم خود اس آگ میں جل رہے ہیں تو ہم دوسروں سے گلہ کیسے کریں۔ جبکہ ہمارے مقابل ایسے مذہںی انتہا پسندوں کی جارحیت کے خلاف عرب ممالک کی واضح درست حکمت عملی نظر آئی ہے۔ طاقت کا درست استعمال ہی بپھرے ہوئے سانڈوں کو ٹھکانے پر لاتا ہے۔
کسی فرد کی گستاخی کے لئے ریاست کو ذمہ دار نہیں بنایا جا سکتا، لیکن جب ریاست کے ترجمان ایسی جہالت و ہرزہ سرائی کریں اور ریاست خاموش رہے تو درست طریقے سے صحیح ردعمل بغیر کسی فساد کے ان منہ زور جانوروں کی لگامیں کھینچنے میں معاون ہو جاتا ہے، پاکستان میں ایسے وقت میں سیاسی کھیل اور الزام تراشی شروع ہو جاتی ہے۔
ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ پرامن احتجاج، مضبوط معیشت کے ساتھ ہو تو عرب ممالک کی طرح سوشل میڈیا اور سفارتی دباؤ سے ہی ایٹمی طاقت ( بھارت) کو گھٹنے کے بل ناک کی لکیریں کھینچنے پر مجبور کردیتا ہے، ورنہ فرقہ واریت مذہبی شدت پسندوں، سیاسی جماعتوں کی ڈیڈھ انچ کی مساجد والی جماعتوں کے بونے پیروکاروں کا ملک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود صرف بھکاری ریاست ہی کہلاتی ہے، اور ایسے ہر احتجاج میں اپنے ہی بھائیوں کے خون سے ان کی پیاس بجھتی ہے، اور اپنے ہی ملک کی املاک جلا کر ان کے دلوں کو چین ملتا ہے۔ سوچیں ذرا ! ہمیں کونسا راستہ منتخب کرنا ہے۔