کوئی فتنہ دجال کے فتنہ سے بڑھ کر نہیں
پیارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعاؤں میں دجال کے فتنہ سے بہت پناہ مانگی ہے اور حدیث پاک میں آتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور فتنہ نہیں۔ لہٰذا آپ بھی اس کی عجیب و غریب تفصیل پڑھیے اور اس عظیم فتنہ سے پناہ مانگئے۔ اس ضمن میں جو احادیث وارد ہیں ان میں سے ایک صحیح اور جامع حدیث کا ترجمہ قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! جب سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کو پیدا کیا ہے کوئی فتنہ دجال کے فتنہ سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اللہ جل جلالہ نے جس نبی کو بھیجا اس نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا۔ میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو ‘وہ لامحالہ تمہاری طرف خروج کرے گا۔ اگر اس کے خروج کے وقت میں تمہارے درمیان موجود ہوا تو میں ہر مسلمان کی طرف سے اس کے سامنے حجت پیش کروں گا اور اگر اس کاخروج میرے بعد ہوا تو ہر آدمی اپنی حجت خود پیش کرے گا اور میں ہر مسلمان کے لیے اللہ کا مددگار کیے جا رہا ہوں۔
دجال شام اور عراق کے درمیان ایک شگاف میں سے نکلے گا اور دائیں بائیں فساد بپا کرے گا۔ اے اللہ کے بندو! اے لوگو! ثابت قدم رہنا ‘میں تمہارے لیے اس کی ایسی علامات بیان کروں گا جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے نہیں بیان کی ہوں گی۔
وہ کہے گا میں تمہارا رب ہوں۔ دیکھو! تم اپنے رب کو مرنے کے بعد ہی دیکھ سکو گے۔ وہ کانا ہے مگر تمہارا رب یک چشم نہیں ہے۔ دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ کافر لکھا ہو گا۔ اس کو ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ مسلمان پڑھ سکے گا۔
دجال کا ایک فتنہ یہ ہے کہ اس کے پاس جنت بھی ہو گی اور دوزخ بھی۔ اس کی جنت میں اصل میںدوزخ ہے اور اس کی دوزخ اصل میں جنت ہے۔ جو اس کی آگ کی آزمائش میں پڑے وہ اللہ کی پناہ مانگے۔ اور سورۂ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے ۔ اللہ تعالیٰ اس بندے کے لیے وہ آگ اس طرح ٹھنڈی اورسلامتی والی بنا دے گا جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے آگ کو سلامتی اور ٹھنڈک والا بنادیا تھا۔
اس کا ایک فتنہ یہ ہے کہ وہ بدو (عرب دیہاتی) سے کہے گا کہ اگر میں تمہارے ماں باپ کو زندہ کر دوں تو کیا تم رب ہونے کی گواہی دو گے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پھر وہ شیطان کو اس کے ماں باپ کی صورت میں اس کے سامنے کھڑا کر دے گا۔وہ کہیں گے: اے ہمارے بیٹے اس کی پیروی کرو‘ یہ تمہارا رب ہے۔
٭ ایک فتنہ اس کا یہ ہوگا کہ وہ کسی انسان پر قابو پا کر اس کوقتل کر دے گا‘ پھر اسے آرے سے دو حصوں میں چیر ڈالے گا ‘ پھروہ لوگوں سے کہے گا اس بندے کی طرف دیکھو میں اسے دوبارہ زندہ کردوں گا۔مگروہ پھر بھی کہے گا کہ میرے سوا اس کاکوئی رب ہے۔چنانچہ اللہ اسے دوبارہ زندہ کر دے گا اور وہ خبیث اسے کہے گاکہ تمہارا رب کون ہے؟ وہ کہے گاکہ میرا رب تو اللہ ہے اور تو اللہ کا دشمن ہے‘ تو دجال ہے ۔اللہ کی قسم! تمہارے متعلق مجھے جھوٹا ہونے کی آج کے دن سے بڑھ کر کبھی اتنی بصیرت حاصل نہیں تھی۔
اس کے فتنوں میں سے ایک فتنہ یہ بھی ہے کہ وہ آسمان کو بارش برسانے کا حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا… اور زمین کو غلہ اُگانے کا حکم دے گا تو وہ غلہ اُگانے لگے گی۔
ایک فتنہ اس کا یہ بھی ہے کہ وہ ایک قبیلے کے پاس سے گزرے گا جو اس کی تکذیب کرے گا اور اس کے تمام چرنے والے جانور ہلاک ہو جائیںگے۔
ایک فتنہ اس کا یہ بھی ہو گاکہ وہ ایک قبیلے سے گزررہو گا ‘قبیلے کے لوگ اس کی تصدیق کریں گے تو وہ آسمان کو بارش برسانے … اور زمین کو اُگانے کا حکم دے گا تو بارش بھی برسے گی اور زمین نباتات بھی اُگائے گی۔ یہاں تک کہ ان کے قبیلہ کے مویشی اسی دن سے بہت زیادہ موٹے تازے ہونے شروع ہونے لگیں گے ‘ ان کے پہلو تن جائیں گے اور ان کے تھن دودھ سے بھر جائیںگے۔
وہ زمین کی ہر چیز کو روند کر اس پر غالب آئے گا سوائے مکہ اور مدینہ کے ‘وہ ان کے جس راستے سے آئے گا وہاں اسے فرشتے تلوار سونتے ملیں گے حتیٰ کہ وہ بنجر زمین کے موڑ پر ایک قسم کی سرخ زمین پر پڑاؤ ڈالے گا ۔ مدینہ اپنے باسیوں سمیت تین مرتبہ لرزے گا‘ اس میں رہنے والا ہر منافق مرد اور عورت نکل کر اس کی طرف چلے آئیں گے۔ وہ خبیث مدینہ سے اس طرح دور ہٹ جائے گا جیسے دھونکنی لوہے کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔ اس دن کو نجات کا دن کہا جائے گا۔
پوچھا گیا: ان دنوں عرب کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ان دنوں تھوڑے ہوں گے ‘ایک مرد صالح ان کا امام ہوگا۔ جس دوران ان کاامام آگے بڑھ کر ان کو صبح کی نماز پڑھا رہا ہو گا اسی صبح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا ‘وہ امام الٹے پاؤں پیچھے ہٹ جائے گا تاکہ عیسیٰ علیہ السلام آگے ہوں اور نماز پڑھائیں۔ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اس کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہیں گے : آگے بڑھو اور نماز کراؤ ‘ کیونکہ اقامت تو آپ کے لیے کہی گئی ہے۔ اس لیے نماز بھی آپ ہی پڑھائیں گے۔ جب وہ امام نماز پڑھا کر ایک طرف ہو جائے گا تو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کہیں گے دروازہ کھول دو! (مدینے کا وہ) دروازہ کھولا جائے گا ۔دروازے کے پیچھے 70ہزار یہودیوں سمیت دجال موجود ہو گا۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس تیز تلوار ہو گی۔
جب دجال‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھے گا تو وہ یوں پگھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے اور وہ بھاگ جائے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے لُدِّ شَرقی کے دروازے پرجا لیں گے اور اسے قتل کر دیںگے۔ اللہ تعالیٰ یہودیوں کوشکست دے گا۔اللہ کی مخلوق میں سے یہودی جس چیز کی پناہ لے گا وہ بول اٹھے گی خواہ وہ پتھر ہو‘ درخت ہو‘ دیوار ہو یا کوئی جانور‘ سوائے غرقد کے درخت کے وہ تو یہودیوں کادرخت ہے اس لیے نہیں بولے گا۔ باقی ہر وہ چیز کہے گی: اے اللہ کے مسلمان بندے ! یہ رہا یہودی! آؤ اور اسے قتل کر دو۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت میری امت کے درمیان ایک انصاف پسند جج اور ایک عادل امام کی ہوگی۔ وہ صلیب توڑ دیں گے‘ خنزیر کو قتل کر ڈالیں گے‘ جزیہ ساقط کر دیں گے‘ زکوٰۃ معاف کر دیں گے ‘ وہ کینہ اور بغض کو ختم کر دیں گے ۔ وہ ہر گرم چیز کی گرمی کو نکال پھینکیں گے ‘ یہاں تک کہ:
بچہ سانپ کے بل میں اپنا ہاتھ ڈالے گا تو وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا۔
ایک بچی شیر کو تکلیف پہنچائے گی مگر وہ اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔
٭ بھیڑیا بھیڑوں کی‘ کتے کی مانند رکھوالی کرے گا…
٭دنیا امن اور چین سے اس طرح بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھر جاتا ہے۔اتفاق کادوردورہ ہوگا‘اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں ہوگی۔ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے گی۔ قریش اپنی حکومت چھین لیں گے اور …
٭ زمین چاندی کے فرش کی طرح ہو کر وہ نباتات اُگائے گی جو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت اُگاتی تھی۔
٭ یہاں تک کہ لوگ انگور کے ایک گچھے کو مل کر کھائیں گے اور وہ انہیں سیر کر دے گا۔
٭ لوگ ایک انار مل کر کھائیں گے تو وہ ان کا پیٹ بھر دے گا۔
٭ بیل بہت تھوڑے پیسوں میں مل جائے گا۔
٭ اور گھوڑے کی قیمت صرف چند درہم ہوگی۔
دجال کے خروج سے پہلے کے تین سال سخت ہو ں گے جن میں لوگ سخت بھوک میں مبتلا ہوں گے۔ پہلے سال اللہ آسمان کو حکم دے گا کہ ایک تہائی بارش روک لو اور زمین کو حکم ملے گا کہ ایک تہائی نباتات روک لے۔ پھر دوسرے سال آسمان کو حکم ہو گا کہ ساری بارش روک لے ۔ چنانچہ ایک قطرہ بھی نہیں برسے گا۔ اور زمین کو حکم ہوگا کہ تمام نباتات روک لے ۔ چنانچہ کچھ بھی سبزہ نہ اُگے گا۔ اور کھُر والا کوئی بھی جانور باقی نہ بچے گا۔ سوائے اس کے جسے اللہ بچانا چاہے۔ پوچھا گیا: ان دنوں لوگ زندہ کیسے رہیں گے؟ تو فرمایا: تہلیل (لاالہ الااللّٰہ) سے ‘تکبیر (اللّٰہ اکبر) اور تحمید (الحمدللّٰہ) سے۔ یہ کلمات ان کو غذا کا کام دے گیں۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَالِ
(سنن ابن ماجہ‘ کتاب الفتن ‘ باب فتنۃ الدجال و خروج عیسیٰ علیہ السلام)