بچوں کی تربیت اور والدین کی ذمہ داری
بچوں کی تعلیم کا ایک اہم دائرہ وہ تربیت ہے جو انہیں اپنے خاندان سے حاصل ہوتی ہے اس تربیت کا اہم ترین پہلو بچوں (اولاد) کے ساتھ والدین کا طرزِ عمل ہے۔
بچوں کی تربیت کے لیے پہلی درس گاہ ماں اور باپ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان دونوں کا ایک بات پہ متفق ہونا ضروری ہے اور بچوں کے سامنے سب سے پہلے تو ایک دوسرے کی عزت کرنا ضروری ہے، ایک دوسرے کی بات سننا ضروری ہے۔ بچہ سب سے زیادہ دیکھ کر سیکھ رہا ہوتا ہے۔ لہذا پہلے تو والدین اور ساتھ رہنے والوں کو، جیسے مشترکہ خاندانی نظام ہے، اپنے ہر عمل کے ساتھ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بچہ یہی سب کچھ مستقبل میں کرے گا، جو دیکھ رہا ہے۔ خواہ آپ اس کو کتنا بھی کسی بات سے کیوں نہ روک لیں، جو اس نے دیکھا ہے، وہ کرنا ناگزیر فطرت ہے۔
یوں بھی بچے کو جس بات سے مسلسل روکا جا رہا ہوتا ہے، وہ اس کے لیے تجسس بن جاتی ہے اور وہ اپنے تجسس کی تسکین یا کھوج کے لیے اس عمل کو دہراتا ہے۔ بچوں کی زندگی کے پہلے تین مختلف مراحل ہیں۔ بچپن ، لڑکپن، نوجوانی کی ابتدا اس دور میں بچے بہت سی تبدیلیوں سے گزر کر بہت کچھ سیکھ کر ایک نئی شخصیت میں ڈھلتے ہیں۔ بچپن میں وہ سب باتیں اپنے والدین سے باتوں باتوں میں اُگل دیتے ہیں، لیکن جب یہ ہی بچے لڑکپن میں پہنچتے ہیں تو بارہ سال کی عمر تک کے بچے والدین سے دوستوں کو اپنی ہر بات شئیر کرنا چاہتے ہیں اس عمر میں نگرانی بھی ضروری ہوتی ہے لیکن گھر میں ایسا خوشگوار ماحول فراہم کرنا جہاں بچے اپنے والدین سے کھل کر دوستوں کی طرح بات کر سکیں والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے بہت سارے معاملا ت میں بچوں کو ہمدردانہ رویوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔عمر کے اس حصے میں بچے کو ایک سمجھدار اور ذہین فرد کی رہنمائی درکار ہوتی ہے۔ ان کے قریب ایسا فرد ضروری ہے جو وقت پڑنے پر ان کی مدد کر سکے۔ ماں یا باپ یہ کردار زیادہ اچھی طرح ادا کر سکتے ہیں۔
انسان سب سے بڑی ناشکری جس شے کی کرتا ہے یقیناً وہ وقت ہے وقت اللہ تعالیٰ کا عظیم ترین تحفہ ہے اسے فضول اور کم اہم کاموں میں صرف کر کے انسان نہ صرف اپنے بے وقوف ہونے کا ثبوت دیتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری بھی کرتا ہے آپ کسی بھی عمر کے خواتین و حضرات یا بچے سے کوئی کام پوچھیں جواب میں تواتر سے یہ جملہ سننے کو ملتا ہے” وقت نہیں ملا ” جب کہ اکثر یہ ہی لوگ زندگی کے قیمتی لمحات فضولیات میں گنوا دیتے ہیں۔
اکثریت سوشل میڈیا یا دوستی کے نام پر ہر روز دو دو چار چار گھنٹوں کی صورت میں گنوا دیتی ہے مگر اپنے بچوں اور بڑوں کے لیے وقت نہیں ہوتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس وقت کی قلت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ ترجیحات طے کرنے کا ہے جب انسان کی ترجیحات واضح ہوتی ہیں تو خود بخود وقت نکل آتا ہے۔ ہم جب اپنی ترجیحات میں بچوں کو وقت دینا اور تربیت یافتہ کرنے کی ٹھان لیں گے تو بچوں کی اچھی تربیت ضرور ممکن ہو جائے گی۔
بچوں کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست و برخاست، میل جول، اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل، تعلیمی کوائف اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش وغیرہ حالات کی نزاکت کے ساتھ ساتھ جوں جوں وقت اور زمانہ بدل رہے ہیں، توں توں بچوں کی تربیت کے رنگ ڈھنگ نئے تقاضے کر نے لگے ہیں۔ اس وجہ سے اکثر بچے اور والدین دونوں ہی اپنی اپنی جگہ کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں کچھ والدین کا اپنے بچوں سے بہت زیادہ فاصلہ ہو جاتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ جملہ ہے کہ ”ہمارے دور میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا“ یا پھر ”ہم لوگ تو اپنے ایامِ جوانی میں ایسے نہیں تھے“۔
جب ہم اپنے بچوں کے سامنے یہ جملہ بول دیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم ابھی تک اسی دور میں جی رہے ہیں جو برسوں پہلے گزر چکا ہے۔ اور ہم اس بات کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں کہ اب جو وقت گزر رہا ہے اس کے تقاضے مختلف ہیں، اس کی ترجیحات اور ہیں، اس کے مسائل کی نوعیت منفرد ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ آنے والا ہر دن پرانے سے بہت مختلف ہے۔
آج ٹیکنالوجی کا دور ہے آنے والا دور اور زیادہ برق رفتار ہو گا بہت ساری ایسی نئی ایجادات ہیں جو ہمارے آباؤ اجداد نے نہیں دیکھی تھیں اور بہت ساری ایسی ایجادات ہوں گی جو ہم نہیں دیکھیں گے، بچوں کو خود مختاری کے ساتھ مثبت فیصلے کرنے میں حوصلہ افزا اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد فراہم کرنا ہر دور میں ضروری ہے، ہاں منفی پہلوؤں کو خوبصورتی کے ساتھ بیان کرکے سمجھایا جا سکتا ہے۔
بچوں کو کسی غلط کام پر بار بار ڈانٹنا ان کی طبیعت میں مزید سختی پیدا کرسکتا ہے۔ لہٰذا کسی غلط کام پر روکنے اور ٹوکنے کا انداز حکمت آمیز ہونا چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ غلطی کی نوعیت دیکھ کر فیصلہ کریں کہ بچوں کو سزا دینی ہے یا صرف ڈانٹنا یا اس غلطی پر پیار سے سمجھانا ہے۔ ہر بچہ ایک جیسی طبیعت کا حامل نہیں ہوتا۔
بعض بچے محض پیار سے سمجھ جاتے ہیں اور بعض کچھ ڈانٹ ڈپٹ سے سمجھتے ہیں۔ ال غرض اس حوالے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا انداز مبارک انتہائی شفقت آمیز ہوتا تھا۔ آپ ؐبچے کی غلطی دیکھ کر اسے نہایت محبت آمیز لہجہ میں تربیت فرماتے تھے اور بچہ آپ کی بات سمجھ کر اس کام کو چھوڑ دیتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بچوں کی ترجیحات کو سمجھتے ہوئے اپنے ستاروں کے روشن مستقبل کے لیے ایسے مثبت فیصلے اور رہنمائی میں اپنا کردار ادا کریں کہ آج کے بچے آنے والے کل میں اسلام اور پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کریں ۔