سیرت طیبہ میں موسم گرما سے متعلق ہدایات

سابقہ ادیان و مذاہب کے برعکس اسلام تا قیامت ایک آفاقی اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے یہ دین آخری امت تک پہنچا۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اسلامی تعلیمات نہ دی ہوں۔ زراعت، تجارت، سیاست، عدالت، صنعت و حرفت، اخلاقیات، معاشرت، عبادات، سماجیات، غرض ہر شعبے کے متعلق آپ نے اسلامی مذاق و مزاج سے لوگوں کو آگاہ فرمایا۔

جہاں مسلمانوں کی دنیوی و اخروی فوز و فلاح کے حصول کے لیے حکیمانہ اصول بیان فرمائے، وہیں مہذب، متمدن اور ممتاز بنانے کے لیے گراں قدر نصیحتیں بھی ارشاد فرمائیں۔ ملک میں اس وقت گرمی اپنے پورے شباب پر ہے، آئیے! موسم گرما، رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے مطابق گزاریں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و احادیث کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے بلا ضرورت دھوپ میں بیٹھنا ناپسند فرمایا ہے۔ چنانچہ قیس بن ابی حازم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دھوپ میں بیٹھا دیکھا تو فرمایا کہ "سائے میں بیٹھو، کیونکہ سائے میں برکت ہے”۔ ( مستدرک حاکم 7711)

موسم گرما میں سایہ دار جگہیں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، کیونکہ تھکے ہارے لوگ وہاں بیٹھ کر آرام کرتے ہیں، لیکن عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ وہاں کوڑا کرکٹ وغیرہ پھینک دیتے ہیں، جس سے مسافروں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سایہ دار جگہ کی حفاظت اور صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنے کی تاکید فرمائی۔ چنانچہ امت کو نہایت سخت انداز میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ "تین جگہیں انسان پر لعنت کا باعث ہیں۔

(1) لوگوں کے پڑاؤ ڈالنے کی جگہ پر پیشاب و پاخانہ کرنا۔
(2) راستوں اور گزرگاہوں پر پیشاب و پاخانہ کرنا۔
(3) سایہ دار جگہ پر پیشاب و پاخانہ کرنا”۔ (ابن ماجہ 328)
جتنا ممکن ہو سکے گرمی سے بچنا چاہیے۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی سے ہمیں یہی پیغام ملتا ہے۔ سیرت کے موضوع پر لکھی گئی تقریبا تمام کتب میں آپ کےحجۃ الوداع کا واقعہ مذکور ہے۔

چنانچہ حجۃ الوداع کا خطبہ دیتے وقت آپ اونٹنی پر سوار تھے اور حضرت اسامہ بن زید نے آپ کو دھوپ سے بچانے کی غرض سے آپ کے سر مبارک پر چادر تنی ہوئی تھی۔ اس سے علما نے گرمی میں سر پر چادر یا چھتری رکھنے کو ایک پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔

ایک صحت مند انسان کو گرمیوں میں پسینہ آنا فطری عمل ہے، لیکن عموماً ایسا ہوتا ہے کہ پسینے سے دوسرے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے، اس لیے ایسی صورتحال میں غسل کا اہتمام کرنا چاہیے نیز اگر آسانی ہو تو خوشبو اور عطر بھی لگانی چاہیے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ "جس چیز سے انسان کو تکلیف ہوتی ہے، وہ چیز فرشتوں کے لیے بھی باعثِ تکلیف ہے”۔ (مسلم 563)

موسم گرما میں گرمی کے ستائے لوگ تفریح کے لیے نہروں، تالابوں اور سوئمنگ پولز کا رخ کرتے ہیں۔ خیر، شریعت نے ان مقامات پر نہانے سے منع نہیں کیا، البتہ چند امور کا لحاظ ضروری ہے۔ مثلا: مرد و زن کا اختلاط نہ ہو، قابل ستر اعضاء ڈھانپے ہوں، موسیقی نہ ہو اور پانی کا ضیاع نہ ہو۔

گرمی کے اثرات صرف انسان ہی نہیں، بلکہ جانور بھی محسوس کرتے ہیں۔ موسم گرما میں بھوک کی بنسبت پیاس ستاتی ہے۔ اس لیے یہ ضرور ذہن میں رکھا جائے کہ جس طرح انسان کو پیاس لگتی ہے، اسی طرح جانوروں کو بھی پیاس لگتی ہے۔ ان کے پینے کے لئے پانی کا انتظام پورے اہتمام سے کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے احادیث میں ایک معروف واقعہ مذکور ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک فاحشہ عورت کو اس لیے بخش دیا گیا کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا۔ (بخاری 3467)

اس کے برعکس ایک دوسری عورت کو اس لیے عذاب دیا گیا کیونکہ اس نے ایک بلی باندھ رکھی تھی، جس کو نہ کھلاتی تھی، نہ پلاتی تھی اور نہ آزاد کرتی تھی کہ وہ کیڑے مکوڑے کھائے۔ (مسلم 2243)

موسم گرما میں اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مزدوری کرنا یقینا ایک دشوار عمل ہے۔ بعض لوگ عبادات پر تو زور دیتے ہیں لیکن مزدور اور ماتحت کام کرنے والوں کے حقوق ادا کرنے کے حوالے سے غافل و کاہل واقع ہوئے ہیں اور ان کی محنت کا صلہ بروقت نہیں دیتے اور خواہ مخواہ ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں، جبکہ حدیث میں آتا ہے کہ "مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو”۔ (ابن ماجہ 2443)

موسم گرما میں بعض لوگ گھروں کی چھتوں پر سوتے ہیں، کیونکہ کمروں کی بنسبت چھت ہوا دار اور ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ چھت پر سونے کے حوالے سے چند امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ایسی چھت پر سونے سے منع کیا گیا ہے جس کے اطراف میں دیواریں نہ ہو۔ اس ممانعت کی ایک وجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو نیند میں چلنے کی عادت ہوتی ہے، اطراف میں دیواریں نہ ہونے کی صورت میں ان کے گر کر زخمی ہونے بلکہ موت واقع ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اطراف کی دیواریں نہ ہونے کی وجہ سے ان کی نظر دوسروں کے گھروں پر پڑ سکتی ہے۔

شریعت نے دوسرے لوگوں کی پردہ داری اور رازداری (privacy) کا لحاظ رکھنے کی بڑی تاکید کی ہے، جیسا کہ سورۃ النور کی آیات سے واضح ہے۔ اس لیے چھت پر سوتے وقت پڑوسیوں کی رازداری اور پردہ داری کے پیش نظر تاکنے جھانکنے سے اجتناب کیا جائے۔ اس فعل کی قباحت اور شناعت کا بخوبی اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ "اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں بغیر اجازت جھانکتا ہے تو ان کے لیے اس کی آنکھ پھوڑنا حلال ہے، نہ دیت ہے، نہ قصاص۔ (مسلم 2586)

ہمارے ہاں موسم گرما میں لوڈ شیڈنگ کے باعث بجلی بند ہو جانا ایک معمول کا مسئلہ ہے۔ ایسے مواقع پر اکثر لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ واپڈا اہلکاروں کو برا بھلا کہنا اور گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حوالے سے سخت فرامین پیش نظر رکھنے چاہییں۔ حدیث میں آتا ہے کہ "مسلمان کو گالی دینا فسق اور کبیرہ گناہ ہے۔ (بخاری 6044)

قرآن مجید میں سب سے زیادہ نماز کی تاکید کی گئی ہے اور شریعت نے مسلمان پر دن میں پانچ وقت کی نماز فرض قرار دی ہے۔ گرمیوں میں عام طور پر فجر کی نماز میں بہت سستی کی جاتی ہے، حالانکہ پانچ وقت کی نمازوں میں نماز فجر کو خاص مقام حاصل ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ "نماز فجر اور عشاء منافقین پر بھاری ہیں، اگر لوگوں کو ان دو نمازوں کی برکات و ثمرات کا پتہ چل جائے، تو وہ زمین پر گھسٹ کر بھی ان دونوں نمازوں کا اہتمام کریں”۔ (بخاری 657)

ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا "جس نے فجر کی نماز پڑھی وہ دن بھر کے لئے اللّٰہ کی ذمہ داری میں آگیا”۔ ( مسلم 657)

اگر ہم بحیثیت مسلمان مہذب و متمدن بننے اور دنیا و آخرت کی فوز و فلاح کے خواہاں ہیں، تو ہمیں اسوۂ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے حاصل شدہ مذکورہ آداب کے مطابق موسم گرما گزارنا چاہیے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button